مریم نواز کی کارکردگی
آٹھ فروری 2024ء کے انتخابات کے نتیجے میں صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن نے اپنی حکومت بنائی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو صوبے کی وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا تو مختلف حلقوں کی جانب سے متفرق ردِ عمل سامنے آیا۔ بین الاقوامی میڈیا نے ان کے بطور وزیر اعلیٰ انتخاب کو سراہا۔ الجزیرہ نے لکھا کہ ان کی کامیابی سے خواتین کو آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔ گلف نیوز نے لکھا کہ مریم نواز نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ بھارتی نشریاتی ادارے ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) نے لکھا کہ پاکستانی خواتین کے لیے انہوں نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ دی ہندو نے لکھا کہ مریم نواز پاکستان میں کسی بھی صوبے کی پہلی وزیر اعلیٰ بن گئی ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا نے بھی ان کی تعریف میں ایسے ہی الفاظ استعمال کیے۔ جہاں ان کی تحسین ہو رہی تھی وہاں تنقید کرنے والے بھی کم نہیں تھے۔ ناقدین کی جانب سے کئی سوالات اٹھائے گئے‘ مثلاً یہ کہا گیا کہ مریم نواز ایک خاتون ہیں‘ وہ ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کے معاملات کو احسن طریقے سے نہیں چلا سکیں گی۔ یہ سوچا گیا کہ مریم نواز کو اس سے پہلے انتظامی امور چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے وہ وفاق یا صوبے میں کبھی وزیر نہیں رہیں‘ تو پہلی ہی بار ان کا وزیر اعلیٰ بن جانا کیا صوبے اور اس کے عوام کے لیے مناسب رہے گا؟ یہ سوال اٹھایا گیا کہ ماضی میں ان کے چچا شہباز شریف پنجاب میں کئی سال تک وزیر اعلیٰ رہے اور ان کی بہترین اور تیز رفتار کارکردگی کی بنا پر انہیں ’شہباز سپیڈ‘ کا نام دیا گیا‘ جبکہ مریم نواز سے پہلے محسن نقوی نے نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر ایک سال تک شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور متعدد منصوبے سرعت کے ساتھ مکمل کیے تو انہیں بھی ’شہباز سپیڈ‘ کی طرز پر ’محسن سپیڈ‘ کہا جانے لگا۔ چنانچہ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ شہباز شریف اور محسن نقوی کی بہترین اور سرگرم کارکردگی کے بعد کیا مریم نواز کچھ ویسا ہی سر انجام دے پائیں گی؟ اس معیار پر پورا اتر سکیں گی جو ان کے چچا اور محسن نقوی نے اپنی گڈ گورننس کے ذریعے طے کیے؟ ایک اور سوال یہ دہرایا جاتا رہا کہ صوبہ نہ صرف مالی مسائل کا شکار ہے بلکہ یہاں حکومتی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور شعبہ جاتی مسائل بھی بہت گمبھیر ہیں تو کیا مریم نواز بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ان پر مسائل کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ سارے سوالات اگر معاشرتی‘ سیاسی اور عوامی سطح پر اٹھائے جا رہے تھے تو یقینا مریم نواز کے ذہن میں بھی ہوں گے۔ وہ بھی یقینا اُس وقت سوچ رہی ہوں گی کہ اتنی بڑی ذمہ داری پوری کر سکیں گی یا نہیں۔ پھر یہ بات مختلف نوعیت کے سوالات اٹھانے اور خدشات کا اظہار کرنے والوں کے لیے حیرت اور استعجاب کا باعث بنی کہ نو منتخب وزیر اعلیٰ کے طور پر مریم نواز نے ایک لمحے کے لیے بھی کہیں ہچکچاہٹ یا کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا‘ اور ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح نہ صرف صوبے کے معاملات کو سمجھا بلکہ درپیش مسائل کے حل کے لیے مناسب وقت پر مناسب احکامات بھی جاری کیے۔
مریم نواز کو پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہونے کا اعزاز تو حاصل ہے ہی‘ لیکن اسے ان کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کی طرف سے سوشل میڈیا پر ان کی مسلسل ٹرولنگ کی جاتی ہے اور ان پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ موروثی سیاست کی علامت ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہم ان کی وزارت اعلیٰ کے دو اڑھائی ماہ کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اتنے مختصر عرصے میں بھی انہوں نے بہت سارے اچھے اقدامات کیے ہیں اور بلا ضرورت بیان بازی اور شو آف سے احتراز کیا ہے۔ ان کے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ ان کی ساری توجہ اپنے کام پر ہے اور وہ اپنی وزیر اعلیٰ والی انتظامی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کر نے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کی پالیسیوں کا ذکر کیا جائے تو ابھی ان کا آغاز ہے اور اگر ان پر پوری طرح عمل درآمد ہو گیا تو امید ہے پنجاب کے عوام کو ریلیف ملے گا۔ 26 فروری کو بطور وزیر اعلیٰ پہلے ہی اجلاس میں انہوں نے کہا کہ خلاف قانون کوئی رویہ برداشت نہیں کروں گی‘ امن و امان لازم لیکن شہریوں کو توہین سے بچانا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین‘ بچوں‘ اقلیتوں پر تشدد اور ریپ ان کی حکومت کی ریڈ لائن ہے۔
انہوں نے اپنی دو ماہ 20 دن کی حکومت میں 33 منصوبے شروع کیے‘ جن کی فہرست اس طرح ہے: لاہور میں کلینک آن ویلز کا آغاز‘ ستھرا پنجاب پروگرام‘ رمضان المبارک میں عوام کو مفت آٹا فراہم کیا‘ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا ماڈل میکنزم نافذ کرنے کی ڈیڈ لائن مقرر کی‘ پنجاب ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پروگرام شروع کیا‘ پنجاب روڈ انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے کام شروع کیا‘ صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے پنجاب دستک پروگرام کا آغاز کیا‘ اپنا گھر اپنی چھت پروگرام کی داغ بیل ڈالی‘ 5 سے 20 کلو واٹ تک کے سولر سسٹم کی فراہمی کے لیے سرسبز پنجاب خوشحال کاشتکار پروگرام وضع کیا‘ سرگودھا کارڈیالوجی ہسپتال شروع کیا‘ 300 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے سولر پینلز کی فراہمی کا منصوبہ تیار کیا‘ ایئر ایمبولنس کا نفاذ کیا‘ گلیوں کی تعمیر و مرمت کے پروگرام کا آغاز کیا‘ لاہور کے 50 علاقوں میں فری وائی فائی سروس شروع کی‘ وزیر اعلیٰ ہیلپ لائن شروع کی‘ کسان کارڈ کا اجرا کیا‘ لاہور میں الیکٹرک بسیں چلانے کا پروگرام مرتب کیا‘ طلبہ کے لیے ای بائیکس دینے کی سکیم متعارف کروائی‘ انٹر یونیورسٹی پنک گیمز کا اجرا کیا‘ وزیر اعلیٰ انٹرن شپ پروگرام شروع کیا‘ موٹروے ایمبولنس کا آغاز کیا‘ اور لیپ ٹاپ سکیم کو جاری رکھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے روٹی اور نان سستا کر دیا ہے۔ نان پہلے تیس روپے کا جبکہ سادہ روٹی 20 روپے کی تھی۔ ان کی حکومت نے نان بیس روپے کا کر دیا ہے جبکہ سادہ روٹی کا نرخ پہلے سولہ روپے مقرر کیا‘ اب سادہ روٹی پندرہ روپے کی کر دی گئی ہے۔ عام آدمی کی لائف لائن روٹی ہی ہوتی ہے کہ کھانا کھا کر ہی وہ زندہ رہتا ہے۔ سستے آٹے اور سستی روٹی سے عام آدمی کو بہت ریلیف ملا ہے۔
مذکورہ بالا سطور میں جن عوامی منصوبوں کا ذکر ہوا اگر ان پر پوری طرح عمل ہو گیا تو نا صرف پنجاب کے عوام کی زندگیوں میں آسانی آئے گی بلکہ مریم نواز بھی خود کو شہاز شریف کا حقیقی جانشین ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔