سپرسیڈ جج اور ان کی سینیارٹی، نیا آئینی بحران

کوئٹہ سے جناب امان اللہ کنرانی سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے میری گزشتہ تحریر پر فوری اور محبت بھرا رد عمل ظاہر کیا۔ انہوں نے تفصیل اور حوالہ جات کے ساتھ بتایا کہ 1996ء کے الجہاد ٹرسٹ کیس میں ججوں کی سینیارٹی کا اصول طے شدہ ہے۔ فہیم اور بیدار مغز جناب کنرانی اس عدالتی نظیر سے انحراف، حتی کہ آئینی ترمیم، کو بھی سیاسی خواہشات کا نتیجہ کہتے ہیں۔انہوں نے میری معلومات میں بہت اضافہ کیا۔ان کا یہ کہنا کسی حد تک درست تھا کہ فوجی افسروں کی سنیارٹی کا ذکر بے محل ہے۔ فون پر کسر و انکسار کے بعد انہوں نے مجھے حتمی سند ان الفاظ میں عنایت کی: ”آپ محترم و غیر جانبدار کسی نفع و نقصان کے طالب نہیں, اخلاص کے ساتھ رائے رکھتے ہیں، اس کو جاری رکھیں۔۔۔ آپ کا جذبہ قابل تحسین و فقیہانہ ہے“۔
دوسرا فوری اور بہت معلومات افزا رد عمل برادر مکرم جنرل انور سعید خان کا تھا۔ انہوں نے دو صفحات میں تفصیل کے ساتھ سلیس انگریزی میں آرمی کا ترقی کا نظام سمو کر رکھ دیا۔جنرل کاکڑ، جنرل آصف نواز اور نصف درجن جرنیلوں کی ترقی اور سپر سیڈ جرنیلوں کی سینیارٹی کی تفصیل بتائی۔ میرے نکتہ نظر کو رد کرتے ہوئے قرار دیا کہ جسٹس آفریدی کے چیف بننے پر جسٹس منصور اور جسٹس منیب ہی سینئر ہیں۔جنرل انور میرے مستقل قاری ہیں، ہر تحریر پر اختلافی، تنقیدی یا توصیفی رد عمل ضرور دیتے ہیں۔ مسلح افواج میں اب اعلیٰ سند یافتگان افسروں کا تناسب خاصا بڑھ چکا ہے لیکن جنرل انور کثیر المطالعہ ہونے اور تین چار زبانیں جاننے کے باعث فوج میں بہت پہلے سے”پروفیسر جنرل“ کہلاتے ہیں۔ وہ ملک سے باہر ہیں. واپس آنے پر میں ان سے بالمشافہ چیزیں سمجھوں گا۔ تاہم مجھے اپنی رائے بدلنے کی کوئی دلیل نہیں مل سکی۔
پھر میں نے ایک عزیز دوست بریگیڈیئر سے گھنٹہ بھر تبادلہ خیال کیا۔ ان کا نام لکھنا مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا: ”جناب اب دنیا میں خالد بن ولید باقی نہیں ہیں جو معزول (سپرسیڈ) ہو جانے پر اسی جذبے سے کام کریں گے۔ سپرسیڈ افسر جہاں ہو، ادارے کے لیے چلتا پھرتا نشان پژمردگی (frustration) ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل کے چیف بننے پر جونیئر جرنیلوں کے ریٹائرمنٹ لینے کی ہمیشہ خاموش (tacit) حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ سنیارٹی چھوڑیں، پی ایم اے سے فارغ افسروں سے موجودہ آرمی چیف کا پوچھیں تو آپ یہ نخوت بھرا تبصرہ سنیں گے:“ کون ارے وہ؟ وہ تو او ٹی ایس والے جنرل ہیں، ریگولر افسر تھوڑی ہیں۔ ”پروفیسر صاحب، منہ نہ کھلوائیے نظم و ضبط کے اسیر ادارے میں سپر سیڈ افسر ایک ناقابل ِ فہم ذمہ داری بن جاتا ہے۔ اسے تو ماتحت بھی بادل ناخواستہ قبول کرتے ہیں۔ رہی عدلیہ، تو میں آپ کی تحریر کے ہر لفظ سے اتفاق کرتا ہوں۔ سپرسیڈ ججوں کو خاموشی سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل جناب ذوالفقار بھٹہ سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کا نقطہ نظر ان الفاظ میں تھا:”جناب مجھے آپ سے مکمل اتفاق ہے کہ دونوں سپر سیڈ ججوں کو باعزت مستعفی ہو جانا چاہیے“۔
ان اختلافات اور اتفاقات کی اہمیت مسلمہ ہے۔ میری یہ رائے البتہ پختہ تر ہو گئی ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی ہے۔ کنرانی صاحب کے عدالتی نظائر قیمتی آئینی تشریحات ہیں لیکن آئین بدل جائے تو تشریح مطلقا نئی درکار ہوتی ہیں۔ جنرل انور کا یہ کہنا اس حد تک درست ہے کہ آرمی چیف بننے کے نتیجے میں سپر سیڈ لیفٹیننٹ جنرل مستعفی نہ ہوں تو چیف کے بعد پرانی ترتیب ہی کے مطابق وہ سینیئر ہوتے ہیں۔ درست، لیکن اس نکتے پر اب سپریم کورٹ کی سینیارٹی نہیں بن سکتی۔ وجہ یہ ہے کہ مثلا جنرل الف کے چیف بننے سے سپر سیڈ جنرل بھلے اسی ترتیب سے سینیئر ہی رہیں، ہوتے رہیں، اگلا چیف بناتے وقت وزیراعظم بغیر سینیارٹی کے اپنی صوابدید پر نیا چیف بنائے گا،جبکہ سپریم کورٹ میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں نیا چیف بناتے وقت چیف جسٹس تین سینئر ججوں کے نام خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے گا۔ کمیٹی انہی تین میں سے کسی ایک کو چیف بنانے کی سفارش کرنے کی پابند ہے۔ یہاں صوابدید نہیں آئینی بندش ہے۔
سینیارٹی کے اس سنگین مسئلے پر میں نے پچھلے ہفتے سوچ کر لکھا تھا کہ یہ مسئلہ کل کی بجائے آج حل کر لیا جائے۔ ایسا نہ کیا گیا تو آئینی بحران تب پیدا ہوگا جب ججوں کے مفادات ٹکرائیں گے۔ عدلیہ میں ایک نئی دراڑ پیدا ہو جائے گی۔ فرض کریں، چیف جسٹس یحییٰ افریدی آج مستعفی ہوں تو اپنے جانشین کے لیے وہ تین سینئر ججوں کے نام خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے۔ سپریم کورٹ کی سائٹ پر درج سینیارٹی لسٹ کے مطابق وہ تین نام جسٹس منصور، جسٹس منیب اور جسٹس امین ہوں گے۔ تو کیا جسٹس مندوخیل اور جسٹس مظہر قلم سونت کر چیف کے آگے نہیں جا کھڑے ہوں گے کہ: ”جناب چیف، اگر آپ خود حلف نہ اٹھاتے تو جسٹس امین چیف بنتے،وہ معذرت کرتے تو جسٹس مندوخیل ہوتے، وہ بھی معذرت کرتے تو جسٹس مظہر چیف بنتے۔ اب سپریم کورٹ کی یہ آئینی سینیارٹی بن چکی ہے۔ جناب، یہ کیا تماشا ہے کہ معذرت کی صورت میں آئین جو سینیارٹی دے رہا ہے، مستعفی ہوتے وقت، آپ اس کا خیال نہیں رکھ رہے،کیوں؟ جسٹس منصور اور جسٹس منیب یہاں اس سینیارٹی لسٹ میں کہاں سے آگئے؟ وہ تو سپرسیڈ ہو چکے ہیں“۔
آئینی بینچ نے یہ مسئلہ آج حل نہ کیا تو تین سال بعد سپریم کورٹ کی موجودہ غیر آئینی سینیارٹی کے مطابق جسٹس منصور اور جسٹس منیب پھر سینئر ہوں گے۔ جسٹس امین اور جسٹس مندوخیل ریٹائر ہو چکے ہوں گے۔ تب جسٹس مظہر، جسٹس عائشہ اور جسٹس شاہد وحید یہ دعویٰ کرسکیں گے کہ آئینی آرٹیکل 175A(3) کے تحت ہم سینئر ہیں۔ سپر سیڈ جسٹس منصور اور جسٹس منیب ہم سے سینئر کیسے ہو گئے۔ میرے بریگیڈیئر دوست کا کہنا بہت درست ہے کہ سپرسیڈ شخص اپنے ادارے کے لیے ناقابل فہم ذمہ داری بن جاتا ہے۔یہی دیکھ لیجئے کہ یحییٰ آفریدی کے حلف اٹھاتے ہی جسٹس منصور نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا خود اجلاس بلا کر چیف کو بس اطلاع دے دی۔ کیا فوج میں سپر سیڈ جرنیل چیف کو ایسا کوئی حکم دے سکتا ہے؟اور نظم و ضبط کیا صرف فوج ہی میں ہوتا ہے؟ ایک غیر آئینی سماعت میں آئینی بینچ پر ان کا تبصرہ: "کیا ہم غیر آئینی ہیں؟ کوئی آئینی مقدمہ سن کر ہم فیصلہ کریں تو کیا ہوگا؟ یہی ہوگا کہ نظر ثانی کی درخواست آئے گی جسے ہم خارج کر دیں گے" جناب چیف، چل چکی آپ کی سپریم کورٹ! جسٹس منصور پہلے تحریک انصاف کو بن مانگے نشستیں دے چکے ہیں۔ اب وہ بغیر اختیار کے آئینی عدالت کے فیصلے بھی کریں گے۔ دھاتی تار کی اس پتنگ بازی سے مجھے عدل کا گلا کٹتا نظر آرہا ہے، مشتری (چیف جسٹس) ہوشیار باش!