بے لگام سوشل میڈیا کو قواعد ضوابط کے حصار کی اشد ضرورت!
تحریر: محمد نصیر الحق ہاشمی
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی (این آئی پی پی) کے ذیلی ادارے نیشنل سکول آف پبلک پالیسی(این ایس پی پی) کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں گول میز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے اس کی ضرورت اور اہمیت کے پیشِ نظر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین نے اپنی اپنی تجاویز پیش کیں۔کانفرنس میں ماہرین نے جدید دور کے تقاضوں کو مد ِنظر رکھتے ہوئے سوشل میڈیا کے معاشرے پر اثرانداز ہونے والے منفی رجحانات کا جائزہ لیا، کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے شرکاء اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک اور تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے شعبے کی ایسی شخصیات تھیں جن کی مہارت شکوک و شبہات سے بالاتر تھی۔ ماہرین کی تجاویز کو سوال و جواب کے ذریعے تنقیدی جائزے کے بعد حتمی شکل دی گئی۔ اس کامیاب کانفرنس کا سہرا نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے ڈین ڈاکٹر نوید الٰہی کے سر ہے کہ جنہوں نے اس کانفرنس کے انعقاد کے لئے سر توڑ کوششیں کیں۔ ڈاکٹر نوید الٰہی کے ساتھ ساتھ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے ریکٹر ڈاکٹر اعجاز منیر بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے کانفرنس کے انعقاد میں ذاتی دلچسپی لی اور ماہرین کے مقالے اور تجاویز کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا۔ ماہرین کے درمیان بحث و مباحثہ اور سوال و جواب کے نتیجے میں جو تجاویز مرتب ہوئیں، شرکاء کی طرف سے ان تجاویز پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
کانفرنس کا آغاز نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے ڈین ڈاکٹر نوید الٰہی نے معاشرے میں ”بے لگام سوشل میڈیا کو قواعد و ضوابط کے حصار کی اشد ضرورت“ کے موضوع پر گفتگو سے کیا۔ ڈاکٹر نوید الٰہی نے سوشل میڈیا کے منفی اور مثبت پہلوؤں کے حوالے سے تفصیل سے روشنی ڈالی اور ماہرین کو موضوع کی مناسبت سے کھل کر اظہارِ خیال کی دعوت دی،جبکہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے ریکٹر ڈاکٹر اعجاز منیر نے حاضرین کا خیرمقدم کیا اور ریگولیٹری اداروں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے حوالے سے حکومتی ترجیحات پر روشنی ڈالی۔ کانفرنس میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل فارق مظہر، معروف صحافی صفدر علی خان، ایسوسی ایٹ پروفیسر لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ڈاکٹر تیمور رحمن،چیئرمین شعبہ کمیونیکیشن سٹڈیز پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سویرا شامی، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن نگہت داد، ایسوسی ایٹ پروفیسر لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ڈاکٹر فرید ظفر اور سینئر صحافی عثمان شامی نے بطور مقرر شرکت کی جبکہ پروفیسر ڈاکٹر عامرہ ملک، ڈاکٹر ثمرین، صبینہ بابر، ساجد سلطان،فریال معاذ، بشریٰ بشیر سمیت سینئر صحافیوں، اساتذہ کرام اور طلبہ کے علاوہ مختلف مکتبہ ئ فکر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔اس مذاکرے کا اصل مقصد سوشل میڈیا کے غلط استعمال خاص طور پر فیک نیوز کے حوالے سے درپیش چیلنجوں، سائبر سکیورٹی، اصلاحات اور قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے پالیسی مرتب کرنے کے سلسلے میں اہم نکات کو زیر بحث لا کر اس کا حل تلاش کرنا تھا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل فارق مظہر کا کہنا تھا کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے، جو جمہوری اقدار کو فروغ دینے، حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کی سمت کو درست رکھنے اور غیر جانبدار معلومات کو عوام تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا بھر میں مواصلات کے ذرائع میں انقلاب برپا کیا ہے،پہلے معلومات کا ذریعہ اخبارات ہوا کرتے تھے، پھر ڈیجیٹل میڈیا آیا جس میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو شامل ہیں اور اب سوشل میڈیا خبروں اور معلومات کو پھیلانے کا اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا میں فیس بُک، ٹوئٹر، انسٹاگرام،یوٹیوب جیسے بڑے پلیٹ فارم پر مشتمل ہے جو اطلاعات کو پھیلانے اور رائے عامہ تشکیل دینے میں کلیدی کردار کے حامل ہیں، لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے ملکی سالمیت اور جمہوریت کو نقصان کا اندیشہ پیدا ہو رہا ہے۔
عصری دنیا میں جہاں سوشل میڈیا لوگوں کو معلومات حاصل کرنے، اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور جمہوری عمل میں شرکت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے،وہیں حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور جھوٹی معلومات پھیلانے کا بھی موجب بن رہا ہے جس سے جمہوریت یا ریاست کو بھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اگر سوشل میڈیا کو قوانین کے ذریعے منظم نہیں کیا گیا تو یہ اپنی افادیت کھو دے گا۔ لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے سوشل میڈیا کے ایسے قوانین اور قواعد و ضوابط بنائے جائیں کہ معاشرے میں یہ اپنی ساکھ کو برقرار رکھ سکے، کیونکہ فی الوقت یہ معلومات کو پھیلانے کا سبب سے بڑا ذریعہ ہے۔
ڈاکٹر تیمور رحمن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ فیک نیوز سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، سوشل میڈیا پر صرف ایک فیصد صارفین تخلیقی کام سرانجام دیتے ہیں، 9 فیصد صرف پوسٹس کو شیئرز کرتے جبکہ باقی 90 فیصد صارفین صرف پوسٹس کو دیکھتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سویرا شامی کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے تمام آفس بیرون ممالک میں موجود ہیں،سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے میں کسی حد تک بگاڑ پیدا کر دیا ہے،ہمیں گراس روٹ لیول پر اِس کے بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے،بحیثیت قوم ہمیں اس حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔معروف صحافی صفدر علی خان کا موضوع کی مناسبت سے کہنا تھا کہ سوشل میڈیا ہمارے خیالات، سوچ اور فیصلہ سازی پر براہِ راست اثر انداز ہو رہا ہے،قانون کی بالادستی کے بغیر فیک نیوز اور شوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوا جا سکتا۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن نگہت داد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فیک نیوز معاشرے میں عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ ہیں، حال ہی میں سوشل میڈیا پر ادارے اور معاشرے کے درمیان فرق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، ملکی سلامتی ہر صورت مقدس ہے،اِس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ ڈاکٹر محمد فرید ظفر کا کہنا تھا کہ سائبر سکیورٹی کی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اِس حوالے سے معاشرے میں شعور بیدار کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل کی اصلاح ہو سکے۔
سینئر صحافی عثمان شامی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا کو فیک نیوز کے چیلنجز درپیش ہیں، میڈیا ہاؤسز کے لئے این او سی کا طریقہ کار وضع کرنا ہو گا تاکہ فیک نیوز کو ریگولیٹ کیا جا سکے۔ بالخصوص پاکستان جیسے ملک کو سوشل میڈیا کے نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لئے ریگولیٹری اصلاحات کے ذریعے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر علی عباس ریسرچ ایسوسی ایٹ این آئی پی پی نے پاکستان میں سوشل میڈیاکے استعمال،چیلنجز اور اس کے حل کے حوالے سے اپنا ریسرچ مقالہ پیش کیا جس کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 111 ملین ہے، جس میں سے 71.7 ملین صارفین سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں،فیس بُک صارفین کی تعداد 44.5 ملین، یوٹیوب صارفین کی تعداد71.7 ملین جبکہ 17.3 ملین لوگ انسٹا گرام استعمال کرتے ہیں، جس سے سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازاہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔تقریب کے آخر میں مقررین نے شرکاء کے سوالات کے تفصیلی جوابات دیئے جبکہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے ریکٹر ڈاکٹر اعجاز منیر نے اپنے دست ِمبارک سے مقررین میں شیلڈیں تقسیم کیں۔
٭٭٭٭٭
final