ڈاکٹر سعید اُلفت کی شاعری!
قومی شاعری سے مراد ایسا حساس طبع فنکار ہے جو قوم کو قعرِ مذلت میں دیکھ کر بے تاب ہو جاتا ہے۔ قوم کی امید و یقین کی معرفت عزم و عمل کی راہیں بتاتا ہے۔ شاعر کی توجہ کئی خامیوں پر پڑتی ہے، وہ تغزل سے نکل کر جادہئ ترقی پر جانے کے لئے کون سی راہوں کی تلقین کرتا ہے، اور ان راہوں کی تلقین کے لئے وہ کسی قسم کے دلائل و مسائل سے کام لیتا ہے، یہ جملہ امور شاعر کی شخصیت و کردار کی ذات و نفسیات اس کے نظریات و تجربات، مشاہدات و معلومات کے مظہر ہوتے ہیں۔
اسی تناظر میں عہد ِحاضر کے معروف شاعر ادیب اور مزاح نگار ڈاکٹر سعید الفت کی شاعری کا اجمالی جائزہ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر سعید الفت اردو پنجابی شعر و ادب کو 12 کتب دان کر چکے ہیں۔ ان میں ”چار چوفیرے“، ”بزم الفت“، ”ہاسے ونڈی دے“، ”رہتل“، ”پھلاں بڑی ٹوکری“، ”علم دا چشمہ“نے خاصی پذیرائی حاصل کی۔اور بے شمار ایوارڈز سے بھی نوازے گئے۔
ڈاکٹر سعید الفت کی زبان و قلم سے نکلنے والی حقیقت پسند انداز کی باتوں نے ادبی ماحول میں جدت پسندی کو فروغ دیا۔ ان کے اشعار میں جذبات و احساسات کا طوفان برپا ہے اور داخلی کیفیات کے ساتھ ساتھ خارجی واردات کی دنیا آباد ہے۔ چند اشعار دیکھئے۔
اُدھراس کا خیال آیا اِدھر وہ بے نقاب آیا
عجب انداز سے تعبیر لے کر میرا خواب آیا
شکست ِآدمیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی
لہو کی سرخیاں پھیلی تو ہم سمجھے شباب آیا!
قدم ہم نے رکھا جب عشق کے میدان میں الفت
ہزاروں آفتیں لے کر حسینوں کا شباب آیا
ڈاکٹر سید الفت کی شاعری میں روایت اور جدت کا رنگ جھلملاتا ہے اور کیفیت دکھائی دیتی ہے جو ذاتی معلومات کے ساتھ ساتھ معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی موضوعات پر بھی طبع آزمائی کرنے پر قادر ہے۔ ان کا طرزِ بیان الفاظ کی نشست و برخاست میں ایک خاص ادا ہے جو ہماری شعریت میں کلامِ جمالیات کو نمایاں کرتی ہیں۔
سوئے ہوئے ارمان جگا کیوں نہیں دیتے
اُجڑی ہوئی بستی کو بسا کیوں نہیں دیتے
مدت سے تیری دید کی طالب ہیں نگاہیں
رُخ سے ذرا آنچل کو ہٹا کیوں نہیں دیتے
جب دل میں بسانے کا ارادہ ہی نہیں ہے
پھر اپنی نگاہوں سے گرا کیوں نہیں دیتے
ڈاکٹر سید اُلفت کا کلام نسلِ نو کو روایت کی پائیداری کا احساس دلاتا ہے، ان کا شاعرانہ رنگ شعرو سخن کی دنیا میں کامیابی کا نشان سمجھا جائے گا۔ اور ان کی شاعری کو ادب کا لازوال ورثہ کے طور جانا جائے گا۔ چند اشعار دیکھئے۔
اپنی خوابوں کو حقیقت ہی بنا لیتے ہیں لوگ
زندگی میں نا سمجھ خود کو مٹا لیتے ہیں لوگ
ایسے ایسے ہمسفر دیکھے ہیں میں نے بارہا
خوف سے بندوں کے آگے سر جھکا لیتے ہیں لوگ
دوسروں کے کام جو آتے نہیں ہیں عمر بھر
اپنے رب کو تُو بتا کیسے منا لیتے ہیں لوگ
ڈاکٹر سعید الفت نے غزل کو جس مقام سے آشنا کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، حسن تغزل سے بھر پور ان کے اشعار میں وہ جواہر پارے ہیں،وہ ان کے کلام میں جا بجا ملتے ہیں۔
بھولی بھالی آپ کی صورت سدا اچھی لگی
دیکھنا چلمن سے چھپ کر یہ ادا اچھی لگی
آج چونکہ عید تھی الفت بڑا تھا منتظر
سرخ جوڑے میں وہ بے انتہا اچھی لگی
ڈاکٹر سعید الفت کی شاعری کا لسانی حوالہ بھی معتبر ہے۔ انہیں قومی زبان اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی شعر و ادب سے جو گہری دلچسپی ہے اس کا اظہار ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتا ہے۔ ان کی غزل کے بعض اشعار میں پنجابی شاعری کے مصرعے اس طرح شامل ہوئے ہیں کہ آورد کا شائبہ نہیں گزرتا اور پنجابی زبان اپنی اجنبیت کے باوجود اشعار کی تفہیم میں رکاوٹ نہیں بنتی بلکہ شعر کی روانی بھی متاثر نہیں ہوتی۔ چند اشعار حوالے کے طور پیش کئے جاتے ہیں۔
جہیدا اپنا گھر نئیں ہوندا
چور دا اوہنوں ڈر نئیں ہوندا
لو بھی لالچی بندے کولوں
کھاندا ویکھ کے جر نئیں ہوندا
پنچھی جیہدے پر نئیں اگے
اُڈ نہیں سکدا تر نہیں ہوندا
سجن ملے تے ٹھنڈ پے جاندی
نہ ملے تے مر نئیں ہوندا
جیہڑا نٹھ میدان چوں جاوے
بندہ تاں اوہ نر نئیں ہوندا
ڈاکٹرسعید الفت کی غزل اور نظم کے مابین بنیادی فرق کو بخوبی جانتے ہیں۔ اسی لئے غزل ہی اس کے مزاج کے مطابق اور نظم میں اس کے مخصوص مربوط مزاج کے مطابق اپنے تجربات مشاہدات و واقعات کو تخیل کی آبیاری سے شعری پیکر میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ غزل کو نیم وحشی صنف قرار نہیں دیتے بلکہ اسے مہذب صنف سخن کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔ اس لئے مجموعی اعتبار سے ان کے ہاں بھاری بھر کم الفاظ سے غزل کے حسن کو پامال کرنے کا رجحان ناپید ہے۔ ان کے ہاں انتہائی سادگی نظر آتی ہے۔
ڈاڈھا مندا حال اے میرا
دل وی تیرے نال اے میرا
ہر ویلے ہی خش خش رہناں
ایہو تاں کمال اے میرا
رب دے ہاں یقین اے پکا
روشن ماضی حال اے میرا!
ساریاں بھل بھلا کے آجا
اکو بس سوال اے میرا!
معروف دانشور اور شاعر پروفیسر ڈاکٹر یونس احقر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر سعید الفت دی خوبی ایہہ وے کہ اوہ اپنے وچاراں نوں ضائع نئیں ہون دیندے۔ اوہناں نوں اپنے مخصوص انداز دے لفظاں دی شکل وچ محفوظ کر لیندے نیں اوہ یقین رکھدے نیں کہ لفظان دی اہمیت اپنی تھاں پر اصل اہمیت نویاں سوچاں تے خیالاں دی ہوندی اے جیہڑے لفظاں دی قدر تے قیمت ودھا دیندے نیں۔ کئی دوسریاں پرانی صنفاں دے مقابلے وچ غزل اپنی جدت پسندی تے خیالاں دی ندرت پاروں بوہتی پسند کیتی جاندی اے۔ اج دے قاری حضرات اوہناں دی شگفتہ مزاجی تے شاعری توں مثبت حوالیوں متاثر وی ہون گے تے ایہنوں اپنے آل دوالے وچ تے نویں نسل تیک اپڑان گے“۔
ڈاکٹر سعید الفت نے ٹھیٹھ پنجابی شاعری کو بھی نیا اور عام فہم رنگ دے کر اپنی ذہانت و لطافت کا لوہا منوایا ہے۔ ان کا رنگ ِسخن بے مثل ہے اور غزل کی رنگینی دیدنی ہے۔ ہماری نسلِ نو کی خوش نصیبی برہ اندوز اور مالا مال ہیں۔
ڈاکٹر سعید الفت نے اپنے کلام میں اپنی شعری جہتوں کو نہایت مہارت سے نبھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جس میں وہ کامیاب رہے ہیں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
روگ پرانا کھا جاندا اے
وقت ٹپانا آ جاندا اے
…………………………………………
جو راز دلاں دے پا جاندا اے
اوہ لوکاں اتے چھا جاندا اے
…………………………………………
دن لنگھ جاندا اوکھا سوکھا
رات دا نھیرا چھا جاندا اے
روگ جدائیاں والا الفت
اندرو اندری کھا جاندا اے
ڈاکٹر سعید الفت اپنی نظموں اورغزلوں پر مشتمل کلیات بھی ترتیب دے رہے ہیں۔ خدا کرے ان کا ذہن اور قلم دونوں ہمیشہ متحرک رہیں۔(آمین) بجاہ سید المرسلین