دہشتگردوں نے60 سے زیادہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، ذمہ داری انتہا پسند گروپ نے قبول کی، مصر میں سیاحتی سرگرمیاں معطل رہیں 

 دہشتگردوں نے60 سے زیادہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، ذمہ داری انتہا پسند ...
 دہشتگردوں نے60 سے زیادہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، ذمہ داری انتہا پسند گروپ نے قبول کی، مصر میں سیاحتی سرگرمیاں معطل رہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:64
ہمیں اب ایک اور دلچسپ اور بڑے مندر کی طرف جانا تھا جو وہاں سے کچھ ہی دور اوپر پہاڑیوں کے دامن میں واقع تھا۔ یہ مصر کی ایک انتہائی طاقتور فرعون ملکہ ہاشپسوت  (Hatshepsut)  کا ایک شاندار اور وسیع و عریض مندر تھا، جو ایک بہت بڑے علاقے میں پھیلا ہوا تھا۔ لکھی گئی تاریخ کے مطابق اس مندر کی تعمیرمیں کوئی پندرہ برس لگے تھے اور یہ اس ملکہ نے اپنی زندگی میں ہی تیار کروا لیا تھا اس مندر کی بڑی خاصیت اس میں بنی ہوئی ایک دو منزلہ عمارت تھی جو ایک وسیع و عریض ہال کی طرز پر تعمیر کی گئی تھی اور کسی حد تک بعد میں آنے والے یونانیوں کی بنائی ہوئی عمارتوں سے مماثلت رکھتی تھی۔ یہ مندر بھی ہزاروں سال گزرنے کے باوجود بہت اچھی حالت میں تھا تاہم مصری حکام نے ایک پروگرام کے تحت اس کی تجدید نو کی اور کئی سالوں میں یہ کام مکمل کرکے عمارت کو تقریباً اس کی اصلی حالت میں ہی بحال کر لیا ہے۔ اب یہ سیاحوں کے لیے ایک بہت پر کشش مقام ہے کیونکہ یہاں کھڑے ہو کر وہ اپنے آپ کو فرعونی معاشرے کا ایک حصہ محسوس کر نے لگتے ہیں۔
زیریں منزل میں بے شمار ستونوں اور برآمدوں کے اوپر بنا ہوا ایک وسیع چبوترہ تھا جس میں بہت سارے اس عظیم ملکہ کے مجسمے رکھے ہوئے تھے اور دیوارں پر روایتی انداز اور تحریروں سے اس طاقتورملکہ کی تاریخ کندہ کی گئی تھی۔
سیڑھیوں کے علاوہ باہر میدان سے بھی ایک ڈھلوان راستہ کسی بڑے ریمپ کی صورت سیدھابالائی منزل پر چلا گیا ہے۔ جس کے ذریعے غالباً انسانوں کے علاوہ گھوڑے اور رتھیں وغیرہ بھی اوپر جاسکتی تھیں۔
بالائی منزل پر بھی ایک وسیع و عریض ہال تھا جس میں داخلے کے کئی دروازے تھے جو دور مندر کے باہر سے بھی نظر آتے تھے۔ یہاں بھی داخلی دروازوں اور ہال میں ملکہ کے بے شمار مجسمے رکھے ہوئے تھے۔ دیواریں یہاں کی بھی خالی نہیں تھیں اور ان پر بھی جگہ جگہ تصویریں اور تاریخ کھود دی گئی تھی۔بڑا پراسرار سا ماحول بنا ہوا تھا۔
مندر کے سامنے کا علاقہ دور تک ہموار کرکے وہاں ایک بڑا میدان بنا دیا گیا تھا جس کے آس پاس کچھ چھوٹے کمروں کے آثار بھی موجود ہیں۔ یہ غالباًوہاں ہمہ وقت قیام کرنے والے پجاریوں اور ملازموں کے رہائشی کمرے تھے۔ ہر طرف ایک ہو کا عالم تھا۔ دور تک کوئی شجر نہیں تھا بس چاروں طرف خشک اور خالی پہاڑ ہی پہاڑ تھے۔ بالائی منزل پر جا کر اردگرد نظر دوڑائیں تو آس پاس کے علاقے میں ایسے ہی چھوٹے بڑے مندروں کے کھنڈرات نظر آتے تھے۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی سلامت نہ تھا اور ان کے پتھر اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے۔ پھر بھی کچھ شوقین مزاج سیاحوں نے وقت کا فائدہ اٹھایا اور آس پاس پھیل کر نزدیکی مندروں میں جا کر تصویریں بنائیں۔
برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ یہ وہ ہی مندر ہے جس میں سیر کے لئے آئے ہوئے مغربی سیاحوں کے ایک گروپ پر 17 نومبر 1997 کو دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے60 سے زیادہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، اس کی ذمہ داری اسلامی انتہا پسند گروپ نے قبول کی۔ اس کے بعد میں بڑی دیر تک مصر میں سیاحتی سرگرمیاں معطل رہیں۔
وقت کافی گزر گیا تھا، دھوپ بھی تھوڑی سخت ہوگئی تھی اور کچھ کچھ چبھنے بھی لگی تھی۔ لہٰذا واپسی کا ارادہ بنا اور ہم سب اسی طرح بسوں میں بیٹھ کر واپس کشتی گھاٹ آگئے اور وہاں سے پہلی موٹر بوٹ پکڑ کر الأقصر واپس آگئے۔
احمد مجھے کچھ دیر آرام کا مشورہ دے کر چلا گیا۔ اب اسے چار بجے آنا تھا اور وہ مجھے کوئی نئی جگہ دکھانے کے لئے لے جانے والا تھا۔ میں کھانا کھا کر اوپر کمرے میں چلا آیا اور دو گھڑی آرام کیلئے پیر پھیلا دیئے۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -