دہشت گردی کا خوف، کب جان چھوٹے گی؟
ذوالفقار علی بھٹو نے پچاس سال پہلے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کرائی تھی تو مجھے یاد ہے آدھا لاہور کھلا ہوا تھا اور صرف وہی حصے بند کیے گئے تھے،جہاں سربراہان مملکت ٹھہرے ہوئے تھے یا کانفرنس ہو رہی تھی۔کیا پُرامن دور تھا اور کیسی سیاسی ہم آہنگی تھی۔آج وقت کتنا بدل گیا ہے، اسلام آباد میں شنگھائی کانفرنس ہو رہی ہے اور دونوں جڑواں شہر بڑی حد تک بند ہیں،خاص طور پر اسلام آباد میں تو بازار، ہوٹلز، شاپنگ مالز، تعلیمی ادارے،دفاتر،عدالتیں سب کچھ بند کر دیا گیا ہے،ایسا نہیں کہ پوری دنیا ہی میں یہ اقدامات کئے جاتے ہیں، تھوڑی بہت سکیورٹی کی ضرورت تو ہر جگہ ہوتی ہے،مگر سنجیاں ہو جان گلیاں وچ مرزا یار پھرے،کی صورتحال پیدا نہیں کی جاتی۔اصل میں گزشتہ 45برسوں کی ہماری پالیسیوں نے جو دوسروں کی جنگ میں شامل ہونے کے حوالے سے اختیار کی گئی ہیں سکیورٹی کے لحاظ سے ملک حساس بنا دیا ہے۔دہشت گردی ہمارے حالات کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ابھی حال ہی میں جو پختون جرگہ خیبرپختونخوا میں ہوا،اُس میں ایسے اعداد و شمار پیش کئے گئے جو اِس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کی اُس جنگ میں شامل ہو کر،جو افغانستان کے خلاف لڑی گئی ہم نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے اِس کا خمیازہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں کئی ایسی تنظیمیں اور جماعتیں وجود میں آ گئی ہیں جو اس پالیسی کی وجہ سے ردعمل کے طور پر قائم کی گئیں۔اب ہمیں بیرونی انتشار کا بھی سامنا ہے اور اندرونی علیحدگی پسندوں سے بھی نمٹ رہے ہیں یہ بہت مشکل کام ہے،مگر گلے میں پڑا ہوا ڈھول تو بجانا ہی پڑتا ہے۔پاکستان کو استحکام کی اشد ضرورت ہے۔عدم استحکام کی وجہ سے ہم ہر نئے دن کے ساتھ مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ایک استحکام تو اندرونی سیاست میں ہم آہنگی سے آئے گا اور دوسرا استحکام تب آئے گا جب ہم ناراض بلوچوں اور پختونوں کو منانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پشتون جرگہ ایک اچھی کوشش تھی،وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر اس جرگے کے انعقاد کی اجازت دی،اجازت نہ دی جاتی تو حالات خراب ہونے کا اندیشہ تھا اس جرگے سے بہت سی باتیں، بہت سے مطالبات سامنے آ گئے ہیں اگر ہمت کر کے ایک جرگہ بلوچستان میں بھی کرنے دیا جائے اور ناراض بلوچوں کی بات سن کر معاملات کو دیکھا جائے تو حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ یہ تو طے ہے کہ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا یہ بھی طے ہے کہ مملکت ِ خداداد پاکستان کے آئین کی حدود میں رہ کر بات سنی جا سکتی ہے،مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے،درازے بند کرنے سے حالات بہتر نہیں ہوتے، صرف علیحدگی پسندی کا لیبل لگا کر لوگوں کو ریاست سے دور نہیں کرنا چاہئے،اُن کی بات سن کر ایسا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے،جو ہمیں اس صورتحال سے نکال دے جس میں ایک عرصے سے پھنسے ہوئے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک میں سیاسی ہم آہنگی ہو گی تو ان مسائل سے نمٹنے میں آسانی رہے گی جو ہماری سلامتی کے لئے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی کے باوجود ہمارے تعلقات مثالی کیوں نہیں، کیوں پاکستان میں افغانستان کی طرف سے در اندازی ہو رہی ہے اور دہشت گردوں کے حملے جاری ہیں۔افغانستان کی حکومت کو بار بار متوجہ کرنے کے باوجود اِس ضمن میں کوئی بہتری نہیں آ رہی۔کالعدم تحریک طالبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان سے کارروائیاں کر ہی ہے اس حوالے سے قومی سلامتی کونسل اور پارلیمنٹ کو مشترکہ لائحہ عمل تیار کر کے افغان حکومت سے سنجیدہ مذاکرات کرنا چاہئیں۔بلوچستان میں بھی حالیہ دِنوں میں دہشت گردی کے سنگین واقعات ہوئے ہیں، جن میں بیسیوں بے گناہ جان سے گئے۔ دہشت گردوں کو نام کوئی بھی دیا جائے حقیقت یہی ہے کہ اُن کے ٹھکانے ہمسایہ ممالک میں ہیں،بھارت بھی اس سارے عمل میں شامل ہے،کیونکہ اُس کی خفیہ ایجنسی ”را“ کا مشن ہی یہی ہے کہ پاکستان میں عدم تحفظ اور بے یقینی پیدا کی جائے۔جب تک ہم اپنے اندر کا انتشار ختم نہیں کریں گے ملک دشمن قوتوں کو اپنے مذموم عزائم پورا کرنے کا موقع ملتا رہے گا۔ہم نے بہت زیادہ آپریشن کر کے دیکھ لئے ہیں یہ وقتی ریلیف ہے، جیسے پھوڑے کو ختم کرنے کے لئے چیرہ دیا جائے جو اندر فسادِ خون ہے اُس کا علاج نہ کیا جائے۔ان کی وجہ سے ہمارا نقصان زیادہ ہوا ہے اور آج بھی وزیرستان کے علاقے میں ہزاروں افراد اپنے مسمار گھروں کی دوبارہ تعمیر کے منتظر ہیں، پشتون جرگے کے اعداد و شمار میں اگر مبالغہ آرائی نہیں کی گئی اور واقعی انہیں مستند حوالوں سے ترتیب دیا گیا ہے تو پھر ہمیں مان لینا چاہئے کہ ہم دہشت گردی کو تو جڑ سے نہیں اکھاڑ سکے البتہ اپنا بہت زیادہ نقصان ضرور کر چکے ہیں۔
شنگھائی کانفرنس کی میزبانی ایک خوش آئند امر ہے تاہم اس نکتے سے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال کو بھی نئے سرے سے ترتیب دینا چاہئے۔افغانستان سے تعلقات کی مضبوطی ازحد ضروری ہے اگر اس کی راہ میں امریکہ آڑے آتا ہے تواسے نو پلیز کہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے افغانیوں کے لئے جتنی قربانیاں دی ہیں دنیا میں شاید ہی کسی قوم نے دی ہوں۔پہلے سوویت یونین کی یلغار کے خلاف افغان وار میں شامل ہو کر اور پھر امریکی قبضے کی بلاوجہ حمایت کر کے ہم نے اپنا جو نقصان کیا ہے، تاریخ اُس کے المیوں سے بھری پڑی ہے۔حیرت اِس بات پر ہے کہ امریکی قبضہ ختم ہونے کے بعد افغانستان سے جن مضبوط تعلقات کی توقع کی جا رہی تھی وہ قائم نہ ہو سکے۔لاکھوں افغانیوں کو پناہ دے کر افغانیوں پر کئے جانے والے احسانات بھی اس طرح ہمارے گلے پڑ گئے کہ پناہ گزینوں کی شکل میں دہشت گرد بھی گھس آئے، جنہوں نے ہمارے شہروں کو نشانہ بنایا۔حالیہ عرصے میں پاک فوج کے افسروں و جوانوں کا جتنا جانی نقصان ہوا ہے وہ اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہم واقعتا حالتِ جنگ میں ہیں۔خوارجی تواتر سے حملے کرتے ہیں،جنہیں پاک فوج پسپا کر کے انہیں جہنم رسید بھی کرتی ہے،مگر اس میں ہماری قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں۔میں سمجھتا ہوں جس طرح آئینی ترامیم کے لئے سب کو اکٹھا کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے،اُسی طرح پاکستان کی خارجہ پالیسی کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ہمیں ملک میں پائیدار امن لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔دہشت گردی کے خوف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہماری سیاحت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے جو ہمارے لئے زرمبادلہ کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتی ہے۔ سیاسی و عسکری قیادت کو اِس پہلو پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے،اس کے لئے قومی نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔