ننھی کلیاں یا آتش فشاں؟

ننھی کلیاں یا آتش فشاں؟
ننھی کلیاں یا آتش فشاں؟
سورس: Pxhere

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ارے واہ ہمارا بچہ تو اس عمر میں بھی موبائل کا ایکسپرٹ ہے، اتنی ایپس کا تو ہمیں بھی نہیں پتہ جتنا  یہ جانتا ہے۔ یار یہ بہت تنگ کر رہا ہے نیند ڈسٹرب ہو رہی ہے، موبائل پر کچھ لگا کر پکڑا دو اسے۔۔ ۔

بچہ رو رہا ہے موبائل پکڑا دو، تنگ کر رہا ہے موبائل پڑا دو۔۔۔  

آج کل یہ الفاظ ہمیں ہر گھر سے سننے کو ملتے  ہیں۔۔۔ ہر گھر سے ویڈیو گیم کی آواز آتی ہے یا کسی نہ کسی انگلش سیریز کی؟  کبھی  سوچا ہے وہ معصوم چہچہا ٹیں کہاں معدوم ہو گئیں؟ کبھی جو بچے پارکس میں ، گلیوں میں اپنے والدین کے ساتھ اچھلتے کودتے نظر آتے تھے کہاں کھو گئے؟  اب ان ننھی کلیوں میں غصہ اور ضد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ یہ آتش فشاں کی طرح کب پھٹ جائیں کوئی  پتا نہیں۔  بس موبائل فون ان کے ہاتھ سے پکڑ لیں نظارہ آپکو خود بخود نظر آجائے گا۔۔ 

ایک وقت تھا جب بچوں کو والدین کا ڈر ہوتا تھا ۔ والدین کی ایک گھوری ہی کافی ہوتی تھی ۔ بچوں کا پڑھائی کے بعد وقت کھیل کود میں گزرتا، ٹی وی پر بچوں کے لیے مخصوص ڈرامے یا کارٹون آتے بچوں کا ٹائم پہلے سے ہی ڈیسائڈ ہوتا تھا ۔

ہمیں یاد ہے جب ہم بچے تھے صبح اٹھنا، تلاوت کرنا ، ٹی وی پر کارٹون آتے تھے جو کہ بچوں کے لیے ہوتے اور انتہائی سبق اموز ہوتے۔ اس کے بعد تیار ہونا  اور سکول نکل جانا ، بریک میں چند منٹ کھانے اور کھیلنے کے لئے ہوتے جسے دوستوں کے ساتھ خوب انجوائے کرتے۔

لیکن اب حالات یکسر تبدیل ہو گئے ہیں اب ایک سال کا بچہ بھی موبائل پر لگا ہوا ہے، اس سے اگر موبائل فون لے لیا جائے تو وہ رونا شروع کر دیتا ہے، ایک 3 سال کا بچہ موبائل کے ایسے ایسے فیچر آپ کو بتائے گا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بچوں میں موبائل فون کا استعمال اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ماں باپ اب پریشان ہو گئے ہیں لیکن اب کیا فائدہ جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔ ہر چیز وقت کے ساتھ اچھی لگتی ہے، جب آپ اپنے آرام کی خاطر بچوں کو موبائل  کاعادی بنا چکے تو اب کیوں پریشان ہو رہے؟ 

بچے موبائل کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ اب ان میں چڑچڑا پن آ گیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق  60 فیصد بچے 10 سے 12 سال  تک کی عمر میں موبائل استعمال کرتے ہیں اور 40 فیصد 13 سے 17 سال تک اپنے موبائل کے مالک بن جاتے ہیں۔ آپ خود سوچیں ہم اپنے گھروں میں بچوں کی تربیت خود کر رہے ہیں یا ان کی تربیت موبائل فونز کر رہے ہیں ؟ بس یہی ایک وجہ ہے کہ جو وقت انکو اپنے والدین سے ملنا چاہیے وہ وقت موبائل ان کو مہیا کرتا ہے تو ایسے حالات میں بچہ اسی کو ہی زیادہ اہمیت دے گا نہ کہ اپنے والدین کو۔  ایک دفعہ  اتفاق سے مجھے ایک دوست کی عیادت کے لیے ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا  اور وہاں ایک فیملی اپنے بچے کو اذان دینے کے لیے بھی موبائل استعمال کر رہی تھی کیا ہم اتنے ہی دور جا چکے کہ اذان تک نہیں دے سکتے، ایک بچے کی زندگی کا جب آغاز ہی اس طرح کر رہے  ہیں تو آگے جا کر کیا کرو گے؟ پھر رونا کیسا ؟

 دور نہیں جاتے ہمارے اپنے گھر میں 3 بچے ہیں ایک بچی 6 سال کی ہے اسے موبائل فون کا ہر فنکشن پتہ ہے، دوسرا بچہ 4 سال کا ہے وہ بھی سب جانتا اور تیسرا   جو کہ ابھی  ایک  سال کا نہیں ہوا  وہ بھی موبائل پر اس طرح مست ہوتا  ہے کہ اگر وہ بند ہو جائے تو رونا شروع کر دیتا اور دوسرے  بچے اس قدر بدتمیز ہو چکے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔۔۔ ان کو موبائل نہ دیا جائے تو چیخنا چلانا،   مار کٹائی شروع کر دیتے ہیں   ، اگر ایک فون دوسرے کے ہاتھ میں ہے اور اس کے ہاتھ میں نہیں تب آپس میں جنگ شروع۔ ایک بچہ پیدا ہوتے ہی موبائل کا عادی ہو جاتا ہے تو اس کا قصور وار کوئی اور نہیں والدین ہیں والدین کو چاہیے ان کو وقت دیں انکی ضروریات کا خیال رکھیں اگر بچے میں غصہ اور چڑچڑاپن آ رہا ہے تو اسکی وجہ دریافت کریں ۔ بچے کو اس وقت سمارٹ فون لے کر دیں جب وہ اس قابل ہو۔  اگر دیں بھی  تو اس پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں ، کوئی ایسی ایپ ان کے موبائل میں کریں کہ وہ انکا ڈیٹا چیک کر سکیں کہ کہیں ہمارا بچہ کسی غلط رستے تو نہیں جا رہا۔

آجکل کے بچے اس قدر ایکٹو ہیں کہ ہماری سوچ بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہے، ان کو ہاتھ میں موبائل پکڑا کر کھانا کھلانے والے والدین جو یہ سوچتے ہیں کہ چلو اس طرح کھانا تو کھا لے گا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے اس معاشرے کے لیے اور والدین جو اپنے بچے کے بے جا غصے سے بعد میں پریشان ہوتے ہیں ان کو پہلے سوچنا چاہیے آج ہم ایسا کر رہے ہیں کل  اس کا بھگتان بھی ہمیں بھگتنا پڑے گا کیونکہ جو آپ بوتے ہو وہی کاٹو گے ۔ یہ کوئی چھاٹا مسئلہ نہیں نہ ہی کسی ایک فیملی کا مسئلہ ہے یہ مشترکہ ہے اور مل کر اسکا کوئی حل سوچنا چاہیے بے شک یہ ایک اچھی ایجاد ہے لیکن ہر چیز کو استعمال کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے ہمیں اور اس سے جڑے ہر ادارے اور حکمران کو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔۔۔    

 نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مزید :

بلاگ -