دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر48
ہمارے مداح نعرے لگارہے تھے،دعائیں دے رہے تھے” مبارک ہو ،مبارک ہو“ میں ہاتھ ہلا کر ان کو جواب دیتا رہا۔سائرہ بانو اور نسیم آپا پریشان تھیں کیونکہ گاڑی مداحوں کے ہاتھوں میں ڈگمابھی گئی تھی۔خیر ہم نے بڑی مشکل سے ہوٹل تک پہنچنے کی کوشش کی تو سامنے دروازے پر بھی ہجوم کھڑا نظر آیا ۔ہم دوڑ کر کچن کے راستے ہوٹل میں داخل ہوئے ۔بیرے اور سارا عملہ ہمیں دیکھ کر پریشان تھا۔
اگلا دن تو اس سے زیادہ سنسنی خیز تھا۔مداحوں نے ہوٹل کو گھیر رکھا تھا ۔جھک گیا آسمان کی شوٹنگ کینسل کرنے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ یہ بات صاف نظر آرہی تھی کہ لوگ ہماری جھلک دیکھنے کے لئے دیوانے ہوچکے تھے۔وہ مجھے اور سائرہ کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتے تھے ۔شوٹنگ کینسل کی اور ہم نے ایک اور فیصلہ کیا کہ ہمیں اپنے مداحوں کے جذبات کو دیکھ کر جلد از جلد شادی کرلینی چاہئے حالانکہ ہم نے ایک سال بعد شادی کا فیصلہ کیا تھا لیکن اب افتاد یہ تھی کہ اگر ہم شادی جلد نہ کرتے تو مداح ہمارا گھراو کرتے رہتے ۔
پس میں نے اصرار کرکے سائرہ اور نسیم آپا کو قائل کیا اورسلطان بھائی کو فون کرکے فیصلہ سے آگاہ کردیا کہ وہ اس کا بندوبست کرے۔ ہم اگلے دو دن میں سادہ تقریب میں نکاح کریں گے ۔اس کے ساتھ ہی میں نے سکینہ آپا،نور بھائی اور عقیلہ کو بھی آگاہ کردیا ۔اسیطرح ناصر،احسان،اسلم جو ان دنوں امریکہ میں تھا،تاج،فوزیہ،سعیدہ،فریدہ سب کو مطلع کرنا ضروری تھا کیونکہ میں زندگی کا ایک بڑا سفر شروع کرنے جارہا تھا اس لئے انہیں بتانا ضروری تھا۔وقت اسقدر قلیل تھا کہ ہم شادی کے کارڈ بھی نہ چھپوا سکے نہ شاپنگ کے لئے زیورات اور ملبوسات پر زیادہ وقت لگا سکتے تھے۔فیصلہ ہوا کہ سائرہ وہی عروسی لباس پہنے گی جو آسانی سے دستاب ہوگا۔یہ ذمہ داری ظاہر ہے نسیم آپا پر ڈالی گئی ۔نسیم آپا لباس کا چناو ہمیشہ پروقار کرتی تھیں،انکی حس جمالیات اعلٰی تھی۔۔اس زمانے میں کوئی ایسا فیشن ڈیزائنر تو تھا نہیں کہ جس کی خدمات حاصل کی جاتیں اورپھر ہوتا بھی تو اسکا نسیم آپا سے کیسا مقابلہ۔وہ جو لبا س بھی پہنا کرتیں ،سب کو متوجہ کرلیتیں ۔سائرہ کے لئے تو فیشن کی قندیل بھی وہی تھیں۔اس وقت خواتین کا یہ عالم تھا کہ وہ سائرہ کے لباس پر نظر رکھتیں کہ وہ کب کیا پہنے تو اسکے لباس کی نقل اتاری جائے۔لڑکیاں سائرہ بانو فیشن پر مر مٹتی تھیں۔
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر47
شادی کی تقریب 11اکتوبر 1966 ءطے پائی تھی اور اس میں دودن باقی تھے۔ہم کسی کو باقاعدہ دعوت نہیں دے پارہے تھے۔اخبارات نے شادی کی اسقدر تشہیر کردی کہ ہمیں جان پہچان والوں کے فون آر ہے تھے اور وہ توجہ چاہ رہے تھے کہ انہیں مدعو کیا جائے ۔لیکن یہ ممکن نہ تھا ۔
ہلدی اور مہندی کی تقریبات کا آغاز انتہائی شاندار ہوا۔میری بہنیں سکینہ آپا کی سربرا ہی میں بہنیں ہلدی اور مہندی کے تھالوں پر موم بتیاں سجا کر سائرہ کے گھرگئیں اور خوب شاندار تقریب منائی .جواباً سائرہ کے گھر سے بھی نسیم آپا اور راحت بھابی بھی ہلدی اور مہندی کے تھال لیکر آئیں اور مجھے اس رسم سے سرفراز کیا گیا۔
یہ سب بہت اچھا تھا لیکن میں جو سائرہ کا عادی ہوچکا تھا ،اس سے ان دنوں نہ ملنے سے بے چینی پیدا ہوگئی تھی۔ستمبر1966 کے مہینے سے کوئی دن ایسا نہیں تھا جب ہم دنوں نہ ملے ہوں اور خوب باتیں نہ کی ہوں ،لیکن ہلدی اور مہندی کی رسموں نے ہم پر پابندیاں لگا دیں ۔ہم دونوں بے قرار تھے ،نہ فون پر بات کرسکتے تھے،دیکھنا تو دور کی بات۔میں تقریب کے سلسلہ میں سائرہ کے گھر جاتا اور کوشش کرتا کہ کسی طرح اس سے مل لوں لیکن مجھے گھر سے باہر گاڑی میں بیٹھا دیا جاتا ۔ادھر سائرہ کا یہ حال ہوتا کہ وہ ساری کھڑکیوں کو کھول کر اوپر سے دیکھنے کی کوشش کرتی مگر ناکام رہتی ۔سب ظالم بن گئے تھے۔یہ دو دن کسی قیامت سے کم نہ تھے۔
آخر وہ دن بھی آن پہنچا ۔میں نے محسوس کیا کہ مجھے بہت گھبراہٹ ہورہی ہے۔پریشان ہوں۔فلموں میں حالانکہ کہ کئی ایسے مناظر فلموا چکا تھا لیکن حقیقی زندگی کا یہ وقت واقعی بھاری تھا۔میری کنوارے پن کایہ آخری دن بھی تھا۔
میں نے اپنا جائزہ لیا اور پھر میرے اندر سکون کی لہر دوڑ گئی۔میرے اندر وہ قوت پیدا ہوئی جو اماں نے مجھے ورثہ میں دی تھی۔مجھے یقین دلایا کہ جسطرح اماں میرا خیال رکھا کرتی تھیں،انکے ہونے سے مجھے اپنے ہونے کا احساس ہوا کرتا تھا،سائرہ بھی میری ہستی کا وہ خلا پورا کرے گی۔وہ میری ذات کی تکمیل کرے گی اور مجھ کو سنبھال لے گی،میری جرابیں،میری شرٹس،بنیانیں سب سنبھال کر ایک جگہ رکھے گی اور مجھے بکھرنے سے بچائے رکھے گی۔اس میں وہ سب کچھ تھا جس کی مجھے ضرورت تھی۔اس احساس نے مجھے شادی کے دن ذہنی پریشانی سے نکال دیا تھا۔
بارات لیکر سائرہ کے گھرروانہ ہوئے تو میری لیموزین اسکو لانے کے لئے تیار تھی،میں اس میں سوار ہوکر نکلا چاہتا تھا کہ مجھے روک لیا گیا۔ ناصر اور سکینہ آپا نے ایک مسئلہ پیدا کردیا اور کہا کہ مجھے لیموزین میں نہیں گھوڑے پر سوار ہونا پڑے گا ۔دولہا گھوڑے پر سوار ہوکر نکلے گا تو اچھا لگے گا۔(جاری ہے)
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر49 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں