سچ کی تلاش۔ کارِ دشوار

جب سے یہ سوشل میڈیا آیا ہے سچ کو تلاش کرنا بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہو گیا ہے جو آنکھیں کھلی رکھ کر سوشل میڈیا کو دیکھتے اور اپنا دماغ بھی استعمال کرتے ہیں، وہ اس طوفان سے کسی حد تک بچ جاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک حیران کن ایجاد ہے۔ انٹرنیٹ جب آیا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ دنیا اتنی تیزی سے بدل جائے گی۔ ابھی تو سنا ہے مستقبل قریب میں مصنوعی ذہانت نے بہت سی نئی ”تباہیاں“ مچانی ہیں ایسی ایسی وڈیوز تو اب بھی سامنے آ رہی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں مگر وہ جیتے جاگتے مشہور کرداروں کی آواز اور شکل و صورت کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں جس چیز کا نام ہی مصنوعی ذہانت رکھا گیا ہے اسے حقیقت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ میرے ایک دوست جو میری طرح ریٹائر پروفیسر ہیں اکثر کنفیوژ ہو جاتے ہیں۔ روزانہ کوئی ایسی خبر یا وڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھ لیتے ہیں جو مفروضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ مجھے فوراً فون کرکے بتاتے ہیں ملک میں بڑا واقعہ ہو گیا ہے یا کسی بڑی شخصیت نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ میں کہتا ہوں میری نظر سے تو ایسی کوئی خبر نہیں گزری، اس پر وہ ہمیشہ سوشل میڈیا کا حوالہ دیتے ہیں میں چونکہ صحافت سے وابستہ ہوں اور میری عادتوں میں ایک عادت کسی بھی واقعہ یا خبر کی مختلف ذرائع سے تصدیق کرنا بھی ہے، اس لئے مجھے سوشل میڈیا کی کسی بھی چونکا دینے والی خبر سے جھٹکانہیں لگتا، میرا طریقہ یہ ہے کہ اس کی مختلف میڈیا کے ذرائع سے تصدیق کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اسے دیکھ نہ لوں کسی کو آگے بھیجتا ہوں نہ خود یقین کرتا ہوں۔ میں انہیں بھی سمجھاتا ہوں حضرت سوشل میڈیا پر اب تقریباً 80فیصد خبریں مبالغہ آرائی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ خاص طورپر جب سے یوٹیوب سے کمائی کرنے کا جنون سوار ہوا ہے، یوٹیوبیے خود رو پودوں کی طرح اُگے ہیں اور وہ چیختی چنگاڑتی سرخیوں کے ساتھ اپنا وی لاگ بنا کر فیس بک یا ٹویٹر پر ڈال دیتے ہیں۔ وہ ہماری نفسیات کو سامنے رکھتے ہیں جو ہم چاہ رہے ہوتے ہیں، اسی قسم کا مواد بنا کر ڈال دیتے ہیں، مثلاً پچھلے دنوں لاہور کے دھرمپور انڈرپاس پر جو واقعہ ہوا اور جس میں کالے ڈالے والوں نے ایک نوجوان کو روک کر اس پر تشدد اور فائرنگ کی، اس میں عوام کی سب سے زیادہ دلچسپی اس میں تھی کہ یہ پروٹوکول قافلہ کس شخصیت کا تھا۔ کالی بڑی گاڑی میں کون سی ایسی شخصیت سوار تھی جس کے لئے اتنے مسلح گارڈز ہمراہ تھے۔ اب اس پر دھڑا دھڑا پوسٹیں بنائی گئیں، سوالیہ سرخی یہی جمائی گئی لاہور واقعہ میں کسی شخصیت کے پروٹوکول گارڈز نے قانون شکنی کی؟ کسی نے مزید آگے بڑھ کریہ لکھ دیا کہ شخصیت کا نام سامنے آ گیا۔ متعلقہ ڈی آئی جی سے انٹرویو کے وی لاگ بھی سامنے آئے ان پر بھی اسی پہلو کی شہ سرخی جما کر ناظرین میں وڈیو دیکھنے کی حس ابھاری گئی۔یعنی یہ چورن بہت بیچا گیا، حقیقت یہ ہے کہ آج تک اس شخصیت کا نام کسی کو معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ سلیمانی ٹوپی پہن کر مسلح گارڈز کے پہرے میں جانے والی شخصیت کون تھی؟ البتہ جھوٹ اتنا پھیلا کہ یوٹیوبر ویوز ملنے کے لحاظ سے مالا مال ہو گئے۔
اب یہ بحث بھی چھڑی ہوئی ہے کہ جھوٹ اتنا زیادہ اور سچ اتنا کم کیوں ہو گیا ہے۔ چند سوچنے سمجھنے والے دوست بیٹھے تھے تو یہی موضوع زیر بحث تھا۔ سب کا خیال تھا کہ جنہیں سچ بولنا چاہیے وہ نہیں بول رہے۔ ایک سینئر صحافی کا کہنا تھا جب آلودگی زیادہ ہو تو آکسیجن کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ اس وقت اطلاعاتی آلودگی اتنی زیادہ ہے کہ جھوٹی اور غیر مصدقہ خبریں حشرات الارض کی طرح پھیل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب ملک میں صرف ایک ٹی وی اور ایک ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ اپوزیشن حکومت کے خلاف احتجاج کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کرتی تو پی ٹی وی کی ٹیمیں ایک دن پہلے کھلے ہوئے بازاروں کی فوٹیج بنا لیتیں۔ احتجاج کی شام خبرنامے میں ہیڈلائن ہی یہ ہوتی کہ عوام نے اپوزیشن کی کال مسترد کر دی، معمول کے مطابق کاروبار ہوتا رہا اور بازار کھلے رہے۔ اس زمانے میں لوگ زیادہ سے زیادہ بی بی سی کی اردو سروس سن سکتے تھے۔ وہ اپنے پروگرام میں جب بتاتا کہ پاکستان میں حکومت کے خلاف ہڑتال کامیاب رہی تو ان کی آنکھوں میں پی ٹی وی کے وہ مناظر گھوم جاتے جو بازار اور دکانیں کھلی دکھاتے اور یوں جھوٹ سچ کا نتارا کرنے میں مشکل پیش نہ آتی۔ اب معاملہ بالکل برعکس ہے۔ عوام اب چینل کم اور سوشل میڈیا زیادہ دیکھتے ہیں۔ جتنا جھوٹ سوشل میڈیا پر آتا ہے، اتنا سچ عام میڈیا یا حکومت کی طرف سے نہیں آتا۔ اس طرح جھوٹ غالب آ جاتا ہے۔ سبی میں ریل گاڑی پر حملے کا واقعہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ سوشل میڈیا چونکہ سرحدی حدود سے ماورا ہوتا ہے، اس لئے اس پر دشمنوں کی طرف سے بھی زہریلا مواد آ رہا ہوتا ہے اور مقامی قوتیں بھی کام کررہی ہوتی ہیں اس واقعہ میں ریاست کی طرف سے لمحہ بہ لمحہ سچ سامنے لانے کا فقدان رہا۔ مقامی میڈیا بھی رسائی نہ ہونے کے باعث صحیح خبریں نہ دے سکا۔ یہ جو خلاء پیدا ہوا اسے کسی نے تو بھرنا تھا۔ جیسے فضا میں ہوا بہرطور پر موجود رہتی ہو،بھلے وہ آکسیجن کی صورت ہو یا کاربن ڈائی آکسیجن کی صورت۔ بھارتی یوٹیوبروں اور میڈیا نے اس خلاء سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ تجسس اتنا زیادہ تھا کہ بی این اے کی گمراہ کن وڈیوز بھی شیئر کی جاتی رہیں، جو ظاہر ہے صرف منفی پروپیگنڈے کے لئے بنائی گئی تھیں۔
ہمارے ہاں کتنے فیصد لوگ ہیں جو جذبات میں آئے بغیر معروضی حالات کو پیشِ نظر رکھ کر کسی خبر میں جھوٹ سچ کو علیحدہ کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کی تعداد کو دیکھیں تو اس کی شرح دنیا کے بڑے ممالک کے لوگوں سے بھی زیادہ ہے جبکہ ہمارے ہاں خواندگی کا تناسب 30فیصد سے زیادہ نہیں اور ان میں بھی وہ شامل ہیں جو صرف اپنا نام لکھ سکتے ہیں۔ اب ایسے لوگوں کے ذہن خراب کرنا کیا مشکل ہے جو کچھ ان کے موبائل کی سکرین پر آئے گا، وہ اسے دیکھیں گے بھی اور اثر بھی قبول کریں گے۔ اب ایسے میں حکومتی پالیسی کیا ہونی چاہیے۔ کیا یہی کہ الیکٹرانک میڈیا پر پابندیاں لگائی جائیں۔ اخبارات کو سچ لکھنے سے روک دیا جائے۔ ہمیں تو ضیاء الحق کا وہ زمانہ بھی یاد ہے جب اخبارات کے فرنٹ پیج سنسر ہوتے تھے، خبروں کی جگہ خالی نظر آتی تھی، یہ خالی جگہ بھی بہت گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی اور قارئین سمجھ جاتے تھے حکومت سچ چھپانا چاہتی ہے۔ اب تو بات ہی بہت آگے چلی گئی ہے۔