اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ حملہ کرکے 400 لوگوں کو کیوں شہید کیا؟ امریکہ کا اس میں کیا کردار ہے؟

غزہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) اسرائیل نے منگل کی رات غزہ پر شدید بمباری کرتے ہوئے جنگ بندی کے معاہدے کو توڑ دیا، جس کے نتیجے میں 400 سے زائد فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔ منگل کی صبح دنیا اس خبر سے جاگی کہ اسرائیل نے غزہ میں اپنی وہ جنگ دوبارہ شروع کر دی ہے جسے فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی قرار دیا جا رہا ہے۔ سوالات اٹھنے لگے کہ ایسا کیوں ہوا، کتنے لوگ متاثر ہوئے اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟
اسرائیلی فضائی حملے شمالی، وسطی اور جنوبی غزہ میں کیے گئے، جن میں رہائشی علاقوں، سکولوں اور پناہ گزینوں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔ الجزیرہ عربی کے مطابق خان یونس میں ابسان کے علاقے پر اسرائیلی ٹینکوں نے شدید گولہ باری کی۔ الجزیرہ کے نامہ نگار طارق ابو عظم نے بتایا کہ زیادہ تر حملے گھنے آباد علاقوں اور وہ عمارتوں پر کیے گئے جہاں بے گھر لوگ پناہ لیے ہوئے تھے۔ حملے میں بچوں سمیت درجنوں افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ کئی افراد ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔ غزہ کے گورنمنٹ میڈیا آفس کے مطابق شہداء میں بڑی تعداد خواتین، بچوں اور بزرگوں کی ہے، اور بعض صورتوں میں پوری کی پوری فیملیاں مٹ چکی ہیں۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ان حملوں کے ذریعے حماس پر دباؤ ڈال کر یرغمالیوں کی رہائی یقینی بنانا چاہتا ہے۔ اسرائیلی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے اطلاعات تھیں کہ حماس دوبارہ حملے کی تیاری کر رہی تھی۔الجزیرہ کی حمادہ سلحوت کے مطابق اسرائیل نے خود مذاکرات کے دوسرے مرحلے سے علیحدگی اختیار کی تھی، جو کہ جنگ بندی کے تسلسل اور بقیہ 59 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا باعث بن سکتا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل نے حملے دوبارہ شروع کرنے سے پہلے واشنگٹن سے مشاورت کی تھی۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ غزہ میں 59 یرغمالی موجود ہیں، جن میں سے اندازاً نصف سے کم اب بھی زندہ ہیں۔ حماس نے اسرائیل پر جنگ بندی توڑنے اور یرغمالیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔
اسرائیل میں یرغمالیوں کے اہل خانہ کی تنظیم نے اسرائیلی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا سب سے بڑا خدشہ حقیقت بن چکا ہے۔ ان کے مطابق، "ہم صدمے میں ہیں، غصے میں ہیں اور خوفزدہ ہیں کہ ہماری حکومت نے ہمارے پیاروں کی رہائی کے عمل کو جان بوجھ کر سبوتاژ کر دیا ہے۔"
اس تمام صورتحال میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آیا اسرائیل نے کبھی بھی واقعی غزہ سے انخلا کا ارادہ رکھا تھا؟ جب دونوں فریقوں نے جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، تب بھی اسرائیل نے تحریری طور پر یہ یقین دہانی نہیں کرائی تھی کہ وہ جنگ دوبارہ شروع نہیں کرے گا۔ حماس نے صرف قطر، مصر اور امریکہ کی زبانی یقین دہانیوں پر معاہدہ قبول کیا تھا لیکن امریکہ، جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، نے فلسطینیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی اپنی یقین دہانی سے پھر ایک بار انحراف کیا ہے۔
اسرائیل کی یہ جنگ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے میں پھیلی ہوئی ہے۔ اسرائیلی فوج جنوبی لبنان پر مسلسل حملے کر رہی ہے، جہاں ایک تازہ حملے میں چار افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی رات اسرائیلی فوج نے شامی شہر درعا میں دو افراد کو قتل کر دیا۔ اس کے علاوہ اسرائیل مغربی کنارے میں بھی پناہ گزین کیمپوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔