طلال بگٹی کے ساتھ ایک عہد ختم ہوگیا (آخری قسط)

طلال بگٹی کا طویل عرصہ اپنے والد نواب بگٹی سے دوری میں گزرا۔ وہ نواب بگٹی کی محفلوں میں کم ہی شریک ہوتے۔ جمیل بگٹی‘ سلیم بگٹی اور سب سے زیادہ سلال بگٹی کا وقت نواب کے ساتھ گزرا۔ اسی طرح ریحان بگٹی بھی نواب سے دور رہے نواب کے بیٹوں میں سب سے خوبصورت ریحان بگٹی تھا نواب اسے بہت چاہتے تھے وہ اپنی جوانی میں موت سے ہمکنار ہوگیا ریحان بگٹی کا نام زیادہ عرصہ تک زندہ رہے گا کہ وہ براہمداغ بگٹی کا والد تھا۔ اور سلیم بگٹی کا نام اس لئے کہ وہ نواب بگٹی کے بعد نوابی کا جانشین اب عالی بگٹی بگٹی قبیلہ کا نواب ہے اس کے سامنے اپنے دادا سے زیادہ مشکلات ہیں وہ پہلی بار طلال بگٹی کی تعزیت کے لئے بگٹی ہاؤس پہنچے تھے۔ بڑی حیرت کی بات ہے کہ بلوچ قبیلہ کا واحد نواب ہے جو اپنی راجدہانی سے دور ہے اور اس کے سامنے بے شمار مشکلات ہیں دیکھیں کب وہ اپنے دادا کی گدی پر بیٹھتا ہے۔ اور اپنے قلعہ میں پہنچتا ہے کچھ دیر اسے انتظار کرنا ہوگا پہلے مرحلے میں اسے اپنے خاندان کو متحد کرنا ہوگا ،تاکہ مستقبل کاسفر شروع ہوسکے۔
ہم سب طلال بگٹی کی شادی میں شریک تھے میری نشت ضیاء الدین ضیائی کے ساتھ تھی اس نے کہاکہ ہوائی سفر خاص طور پر فوکر کا سفر ٹھیک نہیں ہوتا ہے۔ اس نے تو مجھے خوفزدہ کردیا تھا یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا اس لئے ڈر لگ رہا تھا ،لیکن سفر کے دوران خوف ختم ہوگیا اور ضیائی سے کہاکہ یار تم نے تو بہت ڈرادیا تھا تو وہ خوب ہنسا، سفر دلچسپ تھا طے ہوگیا اور ہم اسلام آباد پہنچ گئے قافلہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ نواب کا خاندان انٹرکانٹی نینٹل میں اور ہم مہمان خان آف قلات کے ہوٹل فلیش مین میں چلے گئے ضیائی مرحوم اور میرا کمرہ ایک تھا باقی دوست اپنی اپنی مرضی سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ آغا سلطان مرحوم بھی ہمارے ساتھ ہوٹل میں رہائش پذیر تھے۔ اپنے کمروں میں پہنچنے کے بعد ہم سب نواب صاحب کے پاس چلے گئے رات گئے تک محفل جمی رہی۔ اس دوران چوہدری ظہورالہی آگئے ان کے ساتھ چوہدری شجاعت بھی تھے نواب نے اپنے بیٹے کا تعارف کرایا۔ نواب صاحب ان کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہے ہم سب کاتعارف کرایا۔ رات ہوٹل میں جگمگاتی ہوئی اتر رہی تھی باقی مہمان اس محفل میں شریک تھے۔ ضیاء الدین ضیائی کے ساتھ کچھ دیر باہر گھومے اس کے بعد اپنے کمرے میں آگئے ۔
صبح ہوئی تو ہم نے ناشتہ منگوایا انتہائی سادہ تھا ضیائی مرحوم نے کہاکہ نواب کے مہمانوں میں ہمارا سب سے کم خرچے کا بل آئے گا ہم تو سادہ پانی ہی پیتے رہے۔رات بہت دیر سے سوئے تھے اس لئے دوسرے دن ضیاء سے کہاکہ ہوٹل کی تقریب میں کچھ دیر سے آؤں گا نیند آرہی تھی اس لئے سوگیا کافی دیر بعد اٹھا اور ہوٹل پہنچ گیا نکاح ہوچکا تھا اور مہمان آچکے تھے ہوٹل کھچا کھچ بھر چکا تھا پنجاب سے سندھ سے اور صوبہ سرحد موجودہ کے پی کے سے مہمان آچکے تھے۔ بھٹو بیرونی دورے پر تھے اس لئے نصرت بھٹو شریک تھیں۔ مصطفی کھر اپنی بیگم شہرزاد کے ساتھ موجود تھے۔ تالپور کے بڑے بھائی موجود تھے۔ محفل میں جاگیردار‘ بیوروکریٹ ‘ ممتاز صحافی اور سیاستدان موجود تھے۔ کچھ دیر بعد فوٹو سیشن شروع ہوگیا مصطفی کھر اور نصرت بھٹو اور نواب کے مہمان ایک صف میں کھڑے ہوگئے اور نواب درمیان میں مسکراتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔ ضیاء الدین بھی جاکر کھڑے ہوگئے ضیاء نے مجھ سے کہاکہ یار امان تم بھی آجاؤ ،مگر دور ہی کھڑا رہا۔ یوں یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ طلال بگٹی کی شادی اے بی اعوان کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔ اے بی اعوان نواب بگٹی کے کلاس فیلو تھے نواب بگٹی اس شادی پر آمادہ نہ تھے، لیکن طلال کی والدہ نے بیٹے کی خوشی کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے اس لئے نواب کو مجبور کیا کہ وہ اس شادی کو منظور کرے یوں نواب بھی اپنے ہمسفر کے سامنے جھک گئے۔
ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ جب نواب گورنر تھے تو انہوں نے اپنے بیٹے کو بولان ہوٹل سے گرفتار کروایا تو اس کو کینٹ کے تھانہ میں رکھا یوں طلال بگٹی اپنے باپ کاقیدی بن گیا۔ 1973ء میں بھٹو نے نیپ کی حکومت ختم کی اور نواب بگٹی گورنر بن گئے تو ایک تقریر کے نتیجے میں مجھ کو گرفتار کرلیا گیا اور مجھ پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا اور جب مجھے گرفتار کیا تو کینٹ کے تھانے میں رکھا مجھے رات گئے گرفتار کیاگیا صبح ہوئی تو کمرے کا جائزہ لیا تو دیوار پر کوئلہ سے لکھا ہوا تھا کہ۔۔۔’’باپ گورنر اور بیٹا جیل میں‘‘
یہ تحریر طلال بگٹی نے کوئلہ سے لکھی ہوئی تھی اور اپنی گرفتاری کی تاریخ اور دن بھی لکھا ہواتھا۔جب نواب بگٹی سے دوستانہ ہوا تو انہیں یہ واقعہ سنایا وہ خوب ہنسے اور جب طلال بگٹی نواب کی شہادت کے بعد بگٹی ہاؤس پہنچے اور میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہیں بتلایا کہ مجھے بھی اسی کمرے میں رکھاگیا تھا ،جس میں آپ تھے اور جو اس نے لکھا تھا اس کو بتلایا تو وہ بھی ہنسا اور کہاکہ آپ بھی اسی کمرے میں تھے۔ وہ بھی نواب کا قیدی تھا اور مجھے بھی یہ اعزاز حاصل ہوا۔ بات ان کی شادی کی ہورہی تھی دوسرے دن اسلام آباد کلب میں ولیمہ تھا ہم سب اس میں شریک ہوئے یہاں نواب کے منتخب مہمان تھے۔
قارئین محترم:۔ طلال بگٹی کا چراغ زندگی گل ہوگیا تو کچھ لکھنے کو دل نے چاہا تو لکھ دیا بہت کچھ چھوڑدیا کہ کالم طویل نہ ہوجائے۔ وہ اکبر خان کا بیٹا تھا ،اس لئے اس سے جب بھی ملا تو نواب کا خیال دل میں آتاتھا وہ ہمارے بہت مہربان کا بیٹا تھا اس لئے ہم اس کی عزت کرتے تھے اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے اس کے ساتھ ایک باب ختم ہوگیا وہ دور تھا جس کا باب پلٹ گیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں سے درگزر فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے! آمین:
کہیں کہیں سے بنائے ہیں ہم نے افسانے