کاش ہم اپنے حقیقی ہیروز کی قدر کرنا سیکھ لیں 

  کاش ہم اپنے حقیقی ہیروز کی قدر کرنا سیکھ لیں 
  کاش ہم اپنے حقیقی ہیروز کی قدر کرنا سیکھ لیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پاکستانی قوم ہر سال 28 مئی کو یوم تکبیر جوش و خروش سے اس لیے مناتی ہے کہ اس دن ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمرمبارک مند، محمد حسین چغتائی(ایٹمی سرنگوں کے ماہر اورخالق) جیسے عظیم اور با صلاحیت سائنسدانوں کی محنتوں سے پاکستان ساتویں ایٹمی طاقت کے روپ میں دنیا کے نقشے پر ایک باوقار قوم کی حیثیت سے نہ صرف ابھرا بلکہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑا ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھارتی فوجیں آزاد کشمیرکی سرحد پر حملے کے لیے حکم کی منتظر تھیں، اس لمحے جنرل محمد ضیا ء الحق جو صدر پاکستان کے منصب پر فائز تھے، اچانک اور بن بلائے کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے بھارت جا پہنچے۔ کچھ وقت سٹیڈیم میں گزارنے کے بعد واپس آنے کے لیے جب دہلی ایئرپورٹ پر پہنچے تو بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی انہیں الوداع کہنے کے لیے وہاں موجود تھے۔جہاز کی سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے جنرل محمد ضیاء الحق،راجیوگاندھی کے قریب آئے اور استفسار کیا کہ بھارت کے پاس کتنے ایٹم بم ہونگے، یہ نہیں پتہ کہ انہوں نے کیا جواب دیا لیکن ساری دنیا کو یہ معلوم ہے کہ ضیاء الحق نے کہا اتنے ہی ایٹم بم ہمارے پاس بھی موجود ہیں۔ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میں پورے بھارت کو راکھ کا ڈھیر بنا دوں گا۔ یہ کہتے ہوئے ضیاء الحق جہاز میں جا بیٹھے اور چند لمحوں میں جہاز فضا میں بلند ہوگیا۔بھارت کے دفتر خارجہ کے افسروں کے مطابق راجیوگاندھی،جنرل ضیا کی بات سن کر سکتے کے عالم میں کئی منٹ تک کھڑے رہے۔یاد رہے کہ ایٹمی کامیابی کا کریڈٹ کسی ایک شخص کو نہیں دیا جا سکتا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کے بنائے ہوئے ایٹم بم کو چھ دھماکوں کے ذریعے چلانے کا اعزاز ڈاکٹر ثمرمبارک مند اور ان کی ٹیم کو حاصل ہوا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان تو اپنے رب کے حضور پیش ہوچکے ہیں۔وہ اپنی کتاب "داستان عزم"میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ 1984ء کے بعد جنرل ضیاء الحق کی زبانی پاکستانی قوم کو ہماری ایٹمی قوت کا علم ہوچکا تھا تو مجھے لاتعداد دعوت نامے ہونے لگے۔ان میں اسٹاف کالج، ایئر وار کالج، نیول اسٹاف کالج اور نیشنل ڈیفنس کالج سرفہرست تھے۔تمام آفیسر مجھ سے ملنے، میرے منہ سے ہماری ایٹمی صلاحیت کے بارے میں سننے کیلئے بے تاب تھے۔ تو میں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس اتنے ایٹم بم ہیں کہ ہم بھارت کے ہر بڑے شہر کو کم از کم پانچ مرتبہ صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔میری اس بات پر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ ڈاکٹرثمر مبارک مند بھی ہمارے قابل فخر ہیرو ہیں جن کی قیادت میں مشکل  ترین حالات میں پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کر کے بھارت پر ایٹمی برتری حاصل کی تھی۔ الحمد اللہ ڈاکٹر ثمرمبارک مند ہمارے درمیان موجود ہیں لیکن کوئی انہیں قومی ہیرو کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔ انہوں نے ایک ملاقات کے دوران مجھے بتایا کہ جب ہمیں ایٹمی دھماکوں کا حکم ملا تو ہم اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچے پھر وہاں سے بذریعہ سڑک چاغی پہنچے۔22مئی کو ایٹمی دھماکوں سے متعلقہ تمام سازوسامان متعلقہ جگہ پر پہنچ چکا تھا۔25مئی کو ایٹم بم، سرنگ کے اندر رکھ کر وائرنگ مکمل کرلی گئی۔فرط جذبات میں بم کو اسمبل کرنے والے سائنس دانوں نے کلمہ طیبہ لکھ کر اپنے دستخط کردیئے پھر سرنگ کوکنکریٹ سے بھر دیا گیا۔ پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ٹیلی کمانڈ سٹیشن بنایا گیا تھا،جہاں بم کو آپریٹ کرنے کے لیے کنٹرول سسٹم نصب تھا،اسی دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر اشفاق بھی کنڑول روم میں پہنچ گئے۔دعا کے بعد ماہر انجینئرارشد نے اللہ اکبر پڑھ کے بٹن دبایا۔ اس لمحے وہاں موجود ہر شخص کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوچکی تھیں۔ 35سیکنڈ کے بعد زلزلہ کے جھٹکے محسوس ہوئے تو سب نے اپنی جبینوں کو نوکیلے پتھروں پر رکھ دیااور رب العزت کی بارگاہ میں ہدیہ شکرادا کیا۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے ایٹم بم بناکر پاکستانی قوم پر احسان عظیم کیا تھا اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے نہایت مہارت اورراز داری سے چھ ایٹمی دھماکے کرکے قوم کا سر فخرسے بلند کردیاجبکہ ماہرارضیات محمدحسین چغتائی جنہوں نے دو درجن کولڈ ٹیسٹ سائٹس، 46چھوٹی سرنگیں،35زیرزمین رہائشی کمرے، سٹور وغیرہ 60سینٹی گریڈ گرم موسم کا مقابلہ کرتے ہوئے تعمیر کروائے۔  ان سے میری تین چار مرتبہ ملاقات ہوئی۔ اس دوران انہوں نے مجھے بتایا کہ چھٹے ایٹمی دھماکے کا مقام پختہ سڑک سے ساٹھ کلومیٹر دورریگستان میں تھا۔ جہاں تازہ کھانے پینے اور ٹھنڈہ پانی لانے کے لیے بھی آگ جھلساتی دھوپ میں بذریعہ جیپ سفرکرنا پڑتا تھا۔ پے درپے ریت کے طوفانوں میں انسانوں کو وہاں زندہ رہنا انتہائی مشکل تھا،وہاں جتنے لوگ بھی موجود تھے،ریت کے طوفانوں میں کام کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں  ریت پڑچکی تھی کہ ان کی آنکھوں میں شدید زخموں نے جگہ بنا لی تھی، وہاں ہمارے پاس نہ طبی سہولت میسر تھی اور نہ ہی تازہ کھانے کا تصور کیا جا سکتا تھا، ہم بلوچی لباس پہنے ہوئے سارا دن کام میں مصروف رہتے،پھر زیر زمین بنے ہوئے مٹی کے اندھیرے کمروں میں 60درجے گرمی کے حالات میں آرام کرنا پڑتا تھا،اس  حالت میں نہ ہمیں نیند آتی تھی اور نہ سکون میسر تھا۔یہ سب کچھ ہم نے اپنے سکھ، چین اور آرام کو قربان کرکے اپنی قوم اور وطن کے تحفظ کے سب کچھ کیا تھا، مئی 2015کو میں نے اسلام آباد پہنچ کر ماہر ارضیات محمد حسین چغتائی صاحب سے ملاقات کی تو اس وقت وہ ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف میں مبتلا تھے، ان کی آنکھوں میں ریت پڑ پڑ کے شدید ترین زخم ہوچکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستانی قوم کی بقا اور دفاع کے لیے تمام تکالیفیں برداشت کیں۔محمد حسین چغتائی اس بات کے دو سال بعد نہایت خاموشی سے ایک گمنام قبر میں آسودہ خاک ہوچکے ہیں اور کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ ہوئی۔کاش ہم اپنے حقیقی ہیرو کی قدر ان کی زندگی میں کرنا سیکھ لیں۔ ہم ایسے سیاست دانوں کی رہائی  کے لیے اپنا تن من دھن، سکھ چین سمیت اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں، جنہوں نے اپنی منافقانہ سیاست سے ملک کی بنیاد کو کھولا کررکھا ہے۔ وہ آج کل حقیقی آزادی کا رونا روتے ہوئے لوگوں کووطن عزیز اور پاک فوج کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں سے ہر ممکن بچنے کی ضرورت ہے۔

مزید :

رائے -کالم -