عنوان: پردے میں رہنے دو ……
”عدل سے بڑا کوئی اختیار نہیں ہوتا
ظلم سے بڑی کوئی شکست نہیں ہوتی“
پاکستان میں عدلیہ کی طاقت کو جمہوریت کا سب سے بڑا ستون سمجھا جاتا ہے۔ مگر کیا کریں کہ یہاں فیصلے لکھنے کے بعد ردی کی ٹوکری کی زینت بن جاتے ہیں، اور اختیارات کا کھیل طاقتور بیوروکریسی کے ہاتھوں یرغمال بن جاتا ہے۔ پنجاب میں لوکل گورنمنٹ کے اختیارات کا حالیہ قتل ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح طاقت کے ایوانوں میں عوامی نظام کو کمزور کر کے اپنی مرضی کی حکمرانی قائم کی جا رہی ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے تاریخی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 140-A کے تحت لوکل گورنمنٹ کو مکمل خود مختاری دینے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے واضح کیا تھا کہ لوکل گورنمنٹ نہ صرف آئینی حق ہے بلکہ جمہوری نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ عدالت نے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (LDA) جیسے اداروں کی غیر آئینی کارروائیوں کو روکنے کے لیے ہدایات دیں، اور ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزیوں پر سخت کارروائی کا حکم دیا۔ مگر کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صاف الفاظ میں کہا کہ لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے اختیارات کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔ ایل ڈی اے کو منتخب لوکل گورنمنٹ سے اجازت لیے بغیر کوئی منصوبہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے“سگنل فری کوریڈور پروجیکٹ”کے بارے میں کہا کہ یہ اس وقت تک قانونی نہیں ہو سکتا جب تک عوامی مفادات کے تقاضے پورے نہ ہوں، جیسے پیدل چلنے والوں کے لیے سہولیات فراہم کرنا۔مزید یہ کہ عدالت نے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ 1975 کے سیکشن 46 کو آئینی اسکیم کے خلاف قرار دیا، جس کے تحت ایل ڈی اے کو لوکل گورنمنٹ کے اختیارات پر قبضہ کرنے کا راستہ ملتا تھا۔ مگر بیوروکریسی کی طاقت نے ان تمام احکامات کو ناکام بنا دیا۔
بیوروکریسی نے نہ صرف ان احکامات کو نظرانداز کیا بلکہ ایل ڈی اے کو مزید طاقتور بنا کر لوکل گورنمنٹ کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا۔ ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کا یہ عالم ہے کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود ماحولیاتی اثرات کی مشاورتی کمیٹی قائم نہیں کی گئی۔ ایل ڈی اے کو ایک ایسا آلہ کار بنا دیا گیا ہے جو طاقتور طبقے کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے، جبکہ عوامی مسائل کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت بھی عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ ناکامی کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ طاقتور حلقے منتخب لوکل گورنمنٹ کو اختیارات دینے کے بجائے بند کمروں میں اپنی مرضی کے فیصلے کرنا چاہتے ہیں، اور ایل ڈی اے جیسے ادارے ان کے لیے سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔
سپریم کورٹ نے ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 1997 کے تحت مشاورتی کمیٹی کے قیام کا حکم دیا تھا تاکہ بڑے منصوبوں کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔ لیکن اس کمیٹی کو قائم نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت اور بیوروکریسی عوامی فلاح و بہبود کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہی ہے۔
یہ سوال عوام کے ذہن میں گونج رہا ہے کہ کیا عدلیہ اتنی بے بس ہو گئی ہے کہ اس کے فیصلوں کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ یا پھر بیوروکریسی اور حکومت کے طاقتور حلقے عدلیہ کو بھی مات دے رہے ہیں؟ یہ صورتحال جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لوکل گورنمنٹ کا نظام عوامی مسائل کو نچلی سطح پر حل کرنے کے لیے سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ لیکن جب تک بیوروکریسی کو قانون کے تابع نہیں کیا جائے گا، لوکل گورنمنٹ کے اختیارات محض کاغذوں کی زینت بنے رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے سے نہ صرف آئینی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے بلکہ عوام کا اعتماد بھی ختم ہو رہا ہے۔
یہ وقت کی ضرورت ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کرے۔ پنجاب حکومت کو فوری طور پر لوکل گورنمنٹ کے اختیارات بحال کرنے، ایل ڈی اے کو قانون کے تابع کرنے، اور ماحولیاتی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا حکم دیا جائے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کریں، کیونکہ جمہوریت عوام کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔
“یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یہ اپنی موت آپ مرتا نہیں، نہ ہی جیتا ہے”جمہوریت کی روح عدل اور قانون کی حکمرانی میں ہے، اور اگر عدلیہ کے فیصلے عمل درآمد نہ دیکھ سکیں تو یہ نہ صرف جمہوریت بلکہ قوم کی بقا کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وقت ہے کہ قانون کا بول بالا ہو، ورنہ طاقتور ہمیشہ کمزور کو کچلتا رہے گا۔