پروفیسر باقر خاکوانی، حیات جاوداں میری نہ مرگ ناگہاں میری

   پروفیسر باقر خاکوانی، حیات جاوداں میری نہ مرگ ناگہاں میری
   پروفیسر باقر خاکوانی، حیات جاوداں میری نہ مرگ ناگہاں میری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

"دیکھو ڈاکٹر صاحب، اب آئندہ کبھی آپ اس نامعقول اسکوٹر پر میرے گھر تشریف لائے تو، کان کھول کر سن لیجئے، میں دروازہ نہیں کھولوں گا۔ غضب خدا کا اب آپ لیکچرر اسسٹنٹ پروفیسر نہیں اصغر مال کالج کے پرنسپل ہیں۔ ضرور بالضرور تشریف لائیے، آپ کے آنے سے میں تازہ دم ہو جاتا ہوں، لیکن پلیز گاڑی پر آئیے،ارے ہاں مان لیا کہ اتنی جلدی گاڑی خریدنا آپ کے لیے قدرے مشکل ہے لیکن تب تک یہ اسکوٹر بند اور ٹیکسی کر کے میرے گھر آنا ہوگا۔ اسکوٹر پر میرے گھر آنا منع ہے"۔ ڈاکٹر باقر خان خاکوانی (اب مرحوم) نے بیچارگی سے میری طرف دیکھا. کچھ کہنے کو لب کھولے ہی تھے کہ میں پھر بول پڑا::"بس بس, یہی نہیں اسی پر بس نہیں میں کہیں اور بھی آپ کو اس اسکوٹر پر نہ دیکھوں. سن لیا نا؟" مسکرا کر چپ ہو گئے۔ دو تین ہفتے بعد پھر تشریف لائے۔ہماری یہ گفتگو کوئی سنجیدہ تو تھی نہیں کہ میں اسے یاد رکھ لیتا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھ کر رخصت ہونے لگے تو میں بھی باہر نکلنے لگا۔ انہوں نے یہ کہہ کر مجھے زبردستی روک دیا کہ مجھے سامنے کراچی کمپنی بازار میں جانا ہے۔ پھر بھی میں باہر سڑک تک نکل آیا،ان سے مصافحہ کر کے میں الٹی سمت میں مسجد کو چل پڑا۔ اپنی گلی مڑ کر مسجد والی گلی کو مڑا تو ذرا فاصلے پر درختوں کے نیچے دیکھا کہ موصوف چھپتے چھپاتے اسی نامعقول اسکوٹر کو کک لگا کر اسٹارٹ کر رہے ہیں۔ قبل اس کے کہ ہماری آنکھیں چار ہوتیں انہوں نے تیزی سے اسکوٹر موڑا، پھر گیئر میں ڈال کر مجبورا میرے پاس سے گزر کر یہ جا اور وہ جا۔

ہم میں سے ہر کسی کی زندگی "یوں ہوتا تو ووں کبھی نہ ہوتا", یا یہ کہ "یوں نہ ہوتا تو ووں ہو ہی جاتا" جیسے مفروضات، خواہشات اور توقعات سے بھری ہوتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر باقر خان خاکوانی مرحوم بھی ایسے ہی کم از کم ایک یوں نہ ہوتا تو ووں نہ ہوتا کے ذریعے میری زندگی آسودہ بنا کر دنیا سے گئے ہیں۔ پی ایچ ڈی داخلے کا مرحلہ تھا،ٹیسٹ سے ایک دن قبل بغیر بتائے گھر آ کر وہ یوں پھسکڑا مارے بیٹھ گئے کہ گویا واپس نہ جانے کا ارادہ ہو۔ مجھے ان کے اس رنگ پر کچھ تعجب نہیں ہوا، کہ وہ آئے دن نت نئی پھلجھڑیاں چھوڑ کر احباب کو محظوظ  کیا کرتے تھے۔ پس سوچا کہ میں خاموش مستفسر ہی بھلا۔

 خود ہی بولے: "کل آپ کا ٹیسٹ ہے. ذرا جلدی سے وہ وہ اور فلاں فلاں کتابیں نکال لائیں. یہ دو ایک کتابیں میں اس خدشے کے پیش نظر لایا ہوں کہ آپ کے پاس نہیں ہوں گی. کھانے میں کچھ بھی ہوا چل جائے گا. ہاں، پہلے چائے کا ایک پیالہ ہو جائے، گھر سے باہر ہم صرف اگلی تین نمازیں پڑھنے کو نکلیں گے،فالتو اور سیاسی باتیں ہرگز نہیں کریں گے۔ اب آپ کاپی قلم لے آئیں تاکہ آپ کے ٹیسٹ کی تیاری شروع ہو جائے". اس باقر خانی حکم کے بعد گھنٹہ دو گھنٹے نہیں پورے نو گھنٹے میرے گھر رہ کر انہوں نے مجھے ہر زاویے سے ٹیسٹ کی خوب تیاری کرائی،انہی نو گھنٹوں کے باعث اگلے دن میرا داخلہ ہو گیا۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا تامل، ہچکچاہٹ، تکلف یا شرمساری نہیں ہے کہ اگر وہ اس جارحانہ انداز میں آ کر مجھے تیاری نہ کراتے تو میرا داخلہ ہرگز نہ ہوتا۔

ہر استاد کی طرح پروفیسر ڈاکٹر باقر خان خاکوانی کے بھی ہزاروں شاگرد ہوں گے،ان کے کسی شاگرد سے آپ سوال کریں کہ مرحوم کی شخصیت کو کسی ایک جملے میں سموکر دکھائیں۔ یقین کیجئے ہر شاگرد، ہر تعلق دار، ہر محلے دار، ہر رفیق کار، چھوٹا بڑا اور حد تو یہ کہ ہر رقابت دار (ifany) کا ایک ہی جواب ہوگا: " قرآن سے مرحوم کا اٹوٹ اور انمٹ تعلق". قران سے ان کے اس تعلق کا مشاہدہ میں نے اولاً 1982ء میں کیا اور ان کے تا دم رحلت یہی دیکھا کہ باقر صاحب ہیں اور ان کا قران۔ باقی لوازم حیات ان کی زندگی کی ضمنیات سے کچھ زیادہ نہیں تھے۔ 1982 میں وہ ایل ایل ایم میں داخل ہوئے تو میں ایل ایل بی کے دوسرے سال میں تھا۔ پہلی ملاقات پر یہی اندازہ کیا کہ بہت سے دیگر طلبا جیسے وہ بھی ایک طالب علم ہی ہوں گے۔۔لیکن مسلکی تفریق اور معمولی سے کشیدہ ماحول کا اندازہ کرتے ہی ایک دو دن بعد انہوں نے نماز با جماعت کے بعد درس قران شروع کر دیا۔ عالی مقام مفتی تقی عثمانی کے تب کے نائب مفتی منیب احمد ان دنوں مرحوم باقر صاحب سے ایک سال آگے تھے۔ وہی ہاسٹل کی مسجد میں جماعت کراتے تھے۔ ضمناً عرض کر دوں کہ موصوف آج کل آسٹریلیا میں بہت بڑا دینی مدرسہ اور اسلامی مرکز چلا رہے ہیں۔ دونوں جب باہم چونچیں لڑاتے تو ہم سامعین بس دیکھا کیے۔

مرحوم کی رواداری اور توسع کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف تو وہ تا دم رحلت جماعت اسلامی کے رکن رہے۔ لیکن دو تین دن غائب رہنے کے بعد ہاسٹل واپس لوٹنے پر میرے استفسار پر بتاتے:  "شیخ کیا بتاؤں, بیٹری ذرا ڈاؤن ہو گئی تھی۔ چارج کرانے کو سہ روزے پر چلا گیا". یہ معمول غالبا ان کے آخری ایام تک رہا ہوگا. جہاں ان کا سینہ قرآن کے حسن درخشاں سے منور تھا وہاں قلب و جگر میں چھپ چھپ کر تصویریں بنائے صدہا نفسانی بتان آزری توڑنے کو وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ نکل جاتے۔ دنیاوی بکھیڑوں کی روزمرہ مئے بے سواد سے انہیں کیا سرور ملتا کہ وہ تو ہمیشہ مئے مینائے حجاز میں غوطہ زن رہے۔ زیادہ کا علم نہیں، کم از کم 10 حج تو ان کے اسکور بورڈ پر مجھے نظر آرہے ہیں۔ سفر حج کے علاوہ 15 عمرے علاوہ ازیں ہیں۔ اس حساب سے ہر اڑھائی سال میں ان کا ایک سفر حجاز (یعنی کل 25) بنتا ہے۔

ریٹائر ہو کر وہ سیدھے سبھاؤ الخدمت کے پاس گئے۔ ایکا ایکی ایک دن وہ اٹھے اور کسی کو کچھ بتائے بغیر غائب ہو گئے۔ کہاں گئے، ہم جولی ہونے کے باعث میں بتائے دیتا ہوں۔ اتنا تو علم ہے کہ وہ جنت ہی کے کسی حصے کو جا نکلے ہیں۔ یہ البتہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کس دروازے سے داخل ہوئے ہوں گے۔ گمان یہی ہے کہ وہ دار الصلوٰۃ کو بغیر کھٹکھٹائے جنت میں داخل  ہوئے ہوں گے۔ لیکن ٹھہریے، دنیا میں وہ علم کی جن بلند و بالا رفعتوں کی طرف لپکتے رہتے تھے، ان کے باعث ممکن ہے وہ باب العلم کو نہ گئے ہوں۔ حج اور عمرے ان کی نورانی جھولی میں اتنے زیادہ پڑے ہیں کہ ہو نہ ہو، باب الحج ان کے لیے از خود کھل گیا ہوگا۔ اوں ہونہہ، ٹھہریے اپنے دروس قرانی میں وہ جہاد کی اتنی تلقین کیا کرتے تھے کہ یقینا وہ باب الجہاد ہی کو گئے ہوں گے۔ کچھ بھی ہو، اتنا کہے دیتا ہوں کہ آپ دیگر کے ساتھ ساتھ وہ شدت سے وہاں میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ آئیے ہم سب مل کر دعا کریں کہ اب ہماری باہمی ملاقات جنت الفردوس ہی میں کہیں ہو۔

مزید :

رائے -کالم -