وقت کا پہیہ اور مداری کی پٹاری
میں اِس بات کا حامی ہوں کہ ارتقاء کا عمل جاری رہنا چاہئے کہ یہی زندگی کا اصول ہے اور اس سے بقائے انسانی کا سلسلہ منسلک ہے۔پہیئے کو ہمیشہ آگے کی طرف چلنا چاہئے، اُلٹا چلانے کی کوشش کی جائے تو مسائل و مشکلات جنم لیتی ہیں۔ کل جب بلاول بھٹو زرداری لاہور میں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے تھے،جو آئین میرے اور مولانا فضل الرحمن کے بڑوں نے بنایا ہے اُس میں ایسی تبدیلیاں لا رہے ہیں،جو پاکستان میں پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین کی حاکمیت کو یقینی بنائیں گی تو میں سوچ رہا تھا کیا وا قعی آئینے بنانے والوں نے اس میں اتنے خلاء رکھ چھوڑے تھے جنہیں اب پورا کرنا ضروری ہو گیا تھا،اِس ملک میں نظریہئ ضرورت کی ہوا بھی چلتی رہی ہے اور اس کے تحت آئین میں پی سی اوز بھی شامل کرنے پڑے اور بعض ایسی ترامیم بھی کی گئیں جو وقت گزرنے کے بعد ایک بوجھ محسوس ہونے لگیں اگر تو واقعی ملک کو آگے لیجانا مقصود ہے اور آئین میں واقعتا ایسی ترامیم کی ضرورت تھی،جو 26ویں مجوزہ آئینی ترامیم ذریعے کی جا رہی ہیں تو ست بسم اللہ، مگر معاف کیجئے آئین کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز تو عوام ہوتے ہیں ان ترامیم کے بارے میں انہیں مسلسل اندھیرے میں کیوں رکھا جا رہا ہے۔ماضی میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ آئین میں ترامیم کو اتنا خفیہ رکھا گیا ہو، شکوک وشبہات تو خود ترمیم کے خواہشمندوں نے پیدا کئے ہیں،ابھی تک جبکہ یہ شور و غل ہے کہ اتفاقِ رائے ہوگیا ہے قوم ان ترامیم کے مسودے سے بے خبر ہے، کیا دو تین سیاسی رہنما ایک دوسرے سے مشورہ کر کے فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں، اِس وقت ملک میں ان آئینی ترامیم کے بارے میں ایک طرح سے خدشات کا انبار لگا ہوا ہے۔ وکلاء علیحدہ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور اپوزیشن کے اپنے تحفظات ہیں، بات بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف تک آکر رک جاتی ہے، کچھ پتہ نہیں لگ رہا کیا طے ہوا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے اگر ملک نے آگے کی طرف جاتا ہے، اِن ترامیم کی وجہ سے انصاف کے دروازے آسان ہونے ہیں،پارلیمنٹ اور قانون کی بالادستی کا ڈنکا بجتا ہے تو پھر انہیں اس مداری کی پوٹلی کیوں بنایا جا رہا ہے، جو کسی کو نہیں بتاتا کہ اُس میں کیا ہے اور اچانک وہ کھلے گی تو کیا برآمد ہو گا، یہ کیسی پارلیمنٹ کی بالادستی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ بالکل اندھیرے میں ہیں،انہیں کچھ علم نہیں کیا ہونے جارہا ہے، بس اچانک ایک مسودہ سامنے سامنے آئے گا اور اُن سے منظور ہے کہنے کی فرمائش کی جائے گی، جو در حقیقت حکم ہوگا۔
میری نظر سے جماعت اسلامی کے سینئر رہنما لیاقت بلوچ کا ایک بیان گزرا۔ میں سمجھتا ہوں اُن کے بیان میں دراصل عصر حاضرکی پائی جانے والی سوچ اور عوام کے ذہنوں میں جنم لینے والے خدشات بیک وقت جمع ہو گئے ہیں انہوں نے سوال اُٹھایا ہے کہ ایسی پارلیمنٹ جس کے انتخاب پر کئی سوالات ہیں اور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جعلی عوامی مینڈیٹ رکھتی ہے، کیا آئین میں اتنی بڑی ترمیم کر سکتی ہے،جو اُس کے بنیادی آئینی ڈھانچے کو ہلا دے وہ کہتے ہیں ”آئین کو تنازع سے بچانا چاہئے،کرائے پر اکٹھی اکثریت اور ہارس ٹریڈنگ پر مبنی قانون سازی،آئینی ترمیم کا عمل اور سیاہ قانون ہی قرار پائے گا۔ بحران اور تنازع کا اِس وقت یہی حل ہے کہ نئے چیف جسٹس کی تقرری ہو جائے آئینی ترامیم موخر کر دی جائیں،آئین کو متنازع بنانا ملک دشمنی ہو گی“۔دو ایسی وجوہات ہیں جن کے باعث ملک کے اندر اِن ترامیم کے بارے میں تحفظات موجود ہیں،پہلی وجہ تو وہی ہے جس کی طرف سطورِ بالا میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ترامیم کا مسودہ عوام کے لئے شیئر نہیں کیا گیا۔ عوام تو رہے ایک طرف خود اُن جماعتوں کے ارکانِ اسمبلی کو بھی کچھ علم نہیں مسودے میں کیا ہے،جو ان ترامیم کے لئے سرگرم ہیں، دوسری اور اہم وجہ اس کی ٹائمنگ سے ہے۔ ملک میں نئے چیف جسٹس کا تقرر آج سے آٹھ دن بعد ہونا ہے، 25اکتوبر سے پہلے اِن ترامیم کو منظور کرانے کا ہنگامی خبط شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے، وہ اس بات کو جھٹلانے کا باعث بن رہا ہے کہ یہ ترامیم عوام کی خاطر کی جا رہی ہیں۔عوام کی خاطر کی جانی ہیں تو پھر جہاں 76 سال گزر گئے وہاں چند ہفتے مزید گزر جائیں گے تو کیا قیامت آ جائے گی۔ان ترامیم کو لازماً سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا،کیونکہ وکلاء کی تمام تنظیمیں سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے اور آئینی عدالت کے خلاف اپنا فیصلہ دے چکی ہیں،ایسا ہونے کی صورت میں بحران در بحران کی ایک ایسی شکل سامنے آئے گی جو ملک کی سلامتی اور امن کے لئے بھی خطرہ بن سکتی ہے جیسا کہ آغاز میں کہہ آیا ہوں ارتقاء کا عمل ضروری ہے،اگر ہم سمجھتے ہیں کسی وجہ سے ڈیڈ لاک آگیا ہے اور اب آئینی ترمیم ضروری ہے تو اسے کرنا چاہئے تاہم اُس کے لئے بھی آئین میں دیے گئے طریقہئ کار اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت ضروری ہے۔یہاں مشاورت تو درکنار مسودہ تک عوام کے سامنے نہیں لایا گیا،جس کی وجہ سے ایک اچھا عمل بھی تنازعات کا شکار ہو گیا ہے۔وکلاء اور سول سوسائٹی کا سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ ان ترامیم کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق پر ناقابل ِ برداشت بوجھ پڑے گا۔ریاست کو اتنے زیادہ اختیارات دے دیئے جائیں گے کہ وہ آزادیاں جو اِس ملک میں بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کی گئیں اور جن کے لئے سیاسی جماعتوں، وکلاء اور سول سوسائٹی نے بڑی قربانیاں دیں قصہئ پارینہ بن جائیں گی۔ یہ ایسے تحفظات ہیں جو منظر عام پر آ چکے ہیں، مگر حیرت ہے کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن بھی ان تحفظات کو دور کرنے کے لئے زبان نہیں کھول رہے،کیوں نہیں بتایا جاتا کہ ایسی کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی جو آئین میں دیئے گئے بنیادی انسانی و شہری حقوق سے متصادم ہو۔
بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ ان ترامیم کی منظوری میں کوئی رکاوٹ حائل ہو سکے گی،کیونکہ نمبر گیم پوری کرنے کے لئے طاقت کا ہر دروازہ کھول دیا گیاہے،ایک مولانا فضل الرحمن ہی ایسی شخصیت تھے جن پر طاقت کا استعمال کارگر نہیں ہوتا اس لئے انہیں قائل کرنے کے لئے بلاول بھٹو زرداری کو ذمہ داری سونپی گئی،اس پٹاری سے کیا نکلتا ہے اس کا علم تو ترامیم کی منظوری کے بعد ہو گا، مگر سوال یہ ہے کیا وہ آئین جسے متفقہ قرار دیتے ہماری زبانیں نہیں تھکتیں اور جس کی بڑی خوبی بھی یہی گنوائی جاتی ہے کہ 1973ء کی آئین ساز اسمبلی نے اسے گہرے غور وخوض کے بعد اتفاقِ رائے سے منظور کیا، اِن ترامیم کے بعد ایسا رہ سکے گا؟ اگر خدانخواسطہ ہم اپنی خواہشات و مفادات کی وجہ سے آئین کو ہی متنازع بنا دیتے ہیں تو کیا ملک کی فیڈریشن جو پہلے ہی حد درجہ بحرانوں اور مسائل کا شکار ہے۔نئے بحرانوں سے دوچار نہیں ہو جائے گی؟ سوالات تو اور بھی بہت ہیں مگر شاید ایسے سوالوں پ اب کوئی غور کرنے کو تیار نہ ہو کہ وقت کی طنابیں جن کے ہاتھ میں ہیں،وہ کہیں رکنے کچھ سننے کو تیار نہیں۔