خوراک ضائع ہونے سے بچائیے!

خوراک ضائع ہونے سے بچائیے!
خوراک ضائع ہونے سے بچائیے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اقوام متحدہ کے عالمی ماحولیاتی ادارے یو این ای پی(The United Nations Environment Programme) کی یہ رپورٹ پڑھ کر بہت دکھ اور افسوس ہوا کہ دنیا بھر میں اس وقت 78 کروڑ 30 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں جبکہ عالمی سطح پر پیدا ہونے والی خوراک کا 20 فیصد ضائع کر دیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022ء میں 1.05 ارب ٹن خوراک ریٹیلرز کی دکانوں‘ کھانے پینے کی جگہوں پر اور گھروں کے اندر ضائع کر دی گئی۔ سب سے زیادہ خوراک گھروں میں ضائع ہوتی ہے جو کل ضائع ہونے والی خوراک کا 60 فیصد بنتا ہے۔ یہ اس حوالے سے ایک تشویشناک معاملہ ہے کہ قدرت تو تیزی سے بڑھتی ہوئی نسل انسانی کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی‘ لیکن یہ انسان پیدا ہونے والی خوراک کی قدر اور اس کی منصفانہ تقسیم کا اہتمام نہیں کر رہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جو چیز آسانی سے مل جائے، اس کی قدر کم ہوتی جاتی ہے۔ اس کو انگریزی میں ڈائمنشنگ مارجنل یوٹیلٹی کا قانون (Law of diminishing marginal utility) کا نام دیا جاتا ہے، لیکن خوراک کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جن کو 24 گھنٹوں میں اتنا بھی کھانا دستیاب نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی کے افعال ہی ٹھیک طریقے سے سرانجام دے سکیں۔ وہ کم خوراکی کا شکار ہیں۔ پیٹ بھرنے کے لیے انہیں ایک ایک دانہ تلاش کرنا پڑتا ہے‘ ایک ایک لقمے کو ترسنا پڑتا ہے۔

پاکستان کی بات کی جائے تو صورت حال مختلف نظر نہیں آتی۔ 2023ء کے گلوبل ہنگر انڈیکس (The 2023 Global Hunger Index)میں پاکستان 125 ممالک میں 102ویں نمبر پر ہے جو بھوک کی ایک ایسی سطح کو ظاہر کرتا ہے جو بہت سنگین صورت حال ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر روز 25000 افراد، جن میں 10000 سے زیادہ بچے شامل ہیں، بھوک اور اس سے جڑی دوسری وجوہات سے مر جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 854 ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں، اور خوراک کی بلند ہوتی ہوئی قیمتیں مزید 100 ملین افراد کو غربت اور بھوک کی طرف لے جا سکتی ہیں۔ ایکشن اگینسٹ ہنگر (Action Against Hunger) ایک کمیونٹی بیسڈ تنظیم ہے اور 50 سے زیادہ ممالک میں سرگرم ہے۔ اس تنظیم کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا میں اتنی خوراک پیدا ہوتی ہے کہ روئے ارض پر موجود ہر فرد پیٹ بھر کر کھا سکے۔ اس کے باوجود 783 ملین لوگ اب بھی بھوکے ہیں تو اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ وہ جنہیں پروردگار رزق عطا کرتا ہے وہ اسے خود کھاتے ہیں‘ دوسروں کا حصہ نہیں نکالتے اور کافی خوراک ضائع بھی کرتے ہیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کا تخمینہ ہے کہ چند برسوں میں دنیا بھر میں 345 ملین سے زیادہ لوگوں کو صحت مند زندگی گزارنے کے لیے مناسب خوراک تک رسائی حاصل نہیں ہو گی۔ ہر سال تقریباً 9 ملین افراد بھوک سے مرتے ہیں جن میں 3.1 ملین بچے بھی شامل ہیں‘ لیکن ساتھ ہی دنیا بھر میں پیدا ہونے والی خوراک کا ایک تہائی حصہ کسی نہ کسی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے یا ضائع کر دیا جاتا ہے‘ تو اسے انصاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خوراک کا ضیاع انسانی زندگیاں تو نگل ہی رہا ہے‘ گہرے معاشی نقصان کا باعث بھی بن رہا ہے‘ جس کے منفی اثرات بھی انسانی آبادیوں اور انسانی زندگیوں پر ہی مرتب ہو رہے ہیں۔ معاشی نقصان اس طرح کہ جو کھانا ہم کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں وہ جب گلتا سڑتا ہے تو اس سے بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسز خارج ہوتی ہیں جو زمین کا درجہ حرارت بڑھا رہی ہیں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ یہ ماحولیاتی تبدیلیاں الگ سے انسانی تباہ کاریوں کا باعث بن رہی ہیں۔ 2010ء میں اور پھر 2022ء میں پاکستان میں آنے والے سیلاب کو کوئی نہیں بھولا ہو گا۔ یہ تباہ کن سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کے شاخسانے تھے۔ ایسی تبدیلیاں مزید بھی پیدا ہو رہی ہیں جن کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ ظاہر ہوں گے۔

ان ساری چیزوں کو سامنے رکھیں تو ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اور جتنا بھی ممکن ہو خوراک کو ضائع ہونے سے بچایا جائے کیونکہ خوراک ضائع ہونے کا مطلب صرف خوراک  ضائع ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیسے، پانی، توانائی، زمین اور ذرائع آمدورفت، ہر چیز ضائع ہو رہی ہے۔ بی بی سی نے اپنے ایک آرٹیکل میں خوراک کو بچانے کے کچھ طریقے لکھے ہیں۔ آئیے سیکھتے ہیں‘ ممکن ہے ان میں کوئی ہمارے کام آ سکے:

سوچ سمجھ کر خریداری یا سمارٹ شاپنگ کریں۔ ضرورت سے زیادہ خوراک نہ خریدیں تاکہ وہ ضائع نہ ہو۔ اس کے بعد یہ یقینی بنائیں کہ آپ نے جو خوراک خریدی ہے، دوبارہ بازار جانے سے پہلے وہ ساری ختم ہو جائے۔ کھانا ٹھیک سے ذخیرہ کریں اور صرف وہی خوراک ذخیرہ کریں جو ذخیرہ کی جا سکتی ہے۔ ایسی چیزیں نہ خریدیں یا کم خریدیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں۔ بچ جانے والا کھانا محفوظ کر لیں یا استعمال کر لیں‘ اگر یہ دونوں ممکن نہیں تو پھر کسی ایسے فرد کو دے دیں جو مستحق ہے۔ کھانے اور دیگر اجزا کو فریز کرنے سے کھانا کم ضائع ہوتا ہے چنانچہ اگر خوراک ضرورت سے زیادہ ہے تو پھر اسے فریز کر لیں تاکہ زیادہ دنوں تک کارآمد رہ سکے اور ضائع نہ ہو۔ گھر پر بچی ہوئی سبزیوں کا سٹاک یا شوربہ بنانا خوراک کو ضائع ہونے سے بچانے کا ایک آسان طریقہ ہے۔ گھروں میں بچے کھچے کھانے سے کھاد بھی بنائی جا سکتی ہے۔

اب ان طریقوں میں کچھ اضافہ میری طرف سے:کھیتوں میں جدید فارمنگ متعارف کرائی جائے تاکہ فصل کی تیاری اور برداشت کے دوران کم سے کم اجناس ضائع ہوں۔ اجناس کو ایک سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے مناسب اور محفوظ بوریوں یا تھیلوں کا استعمال کریں تاکہ باربرداری کے دوران خوراک ضائع نہ ہو۔ گھروں یا گوداموں میں اجناس ذخیرہ کی جائیں تو انہیں چوہوں‘ حشرات اور سسریوں اور سنڈیوں وغیرہ سے بچانے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں تاکہ خوراک کم سے کم ضائع ہو۔ 

 گھروں میں کھانا بناتے وقت خوراک کا جو ضیاع ہوتا ہے اسے روکنے کے لیے بالقصد اقدامات ہونے چاہئیں۔اگر پکا ہوا کھانا پسند نہیں تو اسے ڈسٹ بن میں نہ پھینکیں بلکہ یا تو فریز کر کے محفوظ بنا لیں یا پھر کسی بھوکے کو اللہ کے نام پر دے دیں کہ اس کا پیٹ بھر جائے۔اگر آپ نے کوئی پھل جیسے خربوزہ‘ تربوز یا آم کاٹا ہے اور وہ پھیکا نکلا ہے تو بھی وہ کھا جائیں کیونکہ اس کے ذائقے میں فرق ہے‘ باقی توانائی والی چیزیں (وٹامن وغیرہ) تو ویسی کی ویسی ہیں۔ اس سے اپنے جسم کے لیے توانائی کشید کریں‘ اسے ضائع نہ جانے دیں۔ 

توقع ہے کہ یہ تدابیر اختیار کرکے خوراک کے ضیاع کو کم کیا جا سکے گا اور کچھ بھوکے پیٹ بھرے جا سکیں گے۔ اس سلسلے میں انفرادی اور اجتماعی‘ ہر سطح پر کوششیں کی جائیں گی تو ہی کوئی قابلِ قدر نتیجہ نکل سکے گا۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے خوراک کی پیداوار بڑھانا یقیناً بے حد ضروری ہے اور پیدا ہو چکی خوراک کو ضائع ہونے سے بچانا اس سے بھی زیادہ ضروری اور ناگزیر ہے۔

مزید :

رائے -کالم -