نک دا کوکا اور آزادی
معروف گلوکار ملکو،کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں منعقدہ آزادی میلے میں اپنا گانا ”نک دا کوکا“ گا رہے تھے، قومی پرچموں کی بہار،آتش بازی اور لوگوں کے ناچتے، جھومتے انداز سے لگ رہا تھا کہ ان لوگوں کو کس قسم کی آزادی اور کون سا پاکستانی لیڈر پسند ہے، کینیڈا بھی پاکستان کی طرح ایک آزاد ملک ہے اور یہاں بسنے والے ہزاروں لاکھوں پاکستانی کینیڈینز پاکستان کے یوم آزادی کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریبات میں ملی جوش و جذبے سے شریک ہوتے ہیں،ناصر شاہ جنہیں میں کینیڈا میں پاکستان کا غیر سرکاری کلچرل اتاشی کہوں گا، انہوں نے اس خوبصورت آزادی میلے کا اہتمام کیا تھا،بلا شبہ یہ بہت بڑا آزادی میلہ تھا جس پر ناصر شاہ یقینی طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں،اس میلے میں شازیہ منظور،شبنم مجید،محسن شوکت علی اور کئی دوسرے معروف گلوکاروں نے خوبصورت ملی نغمے اور اپنے اپنے مشہور گانے سنائے مگر میلہ، ملکو نے لوٹ لیا، ٹائم کی پابندی آڑے نہ آتی تو شاید ساری رات ”نک دا کوکا“ ہی جاری رہتا، آزادی میلے میں پاکستان سے آئے کئی اور مہمانوں کے علاوہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے چیف آپریٹنگ افسر اور منیجنگ ایڈیٹر اعجاز الحق نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔
پیپلز پارٹی کینیڈا کے صدر چودھری جاوید گجر، معروف بزنس مین سکین کینیڈا کے چیف ایگزیکٹو عامر قریشی کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اس میلے میں مہمان خصوصی کا اعزاز حاصل تھا، میں تمام وقت سوچتا رہا کہ یہ تارکین وطن زیادہ آزاد ہیں یا پھر پاکستان میں آزادی زیادہ ہے،ان تارکین وطن کو ملیں تو انہیں پاکستان کی ہم سے زیادہ فکر ہے،یہ پاکستان کے بارے میں ہم سے زیادہ سوچتے ہیں۔ میں یہاں مقیم پاکستانی تارکین وطن کی باتیں سن رہا ہوں، وہ مجھ سے پاکستان کے حالات کے بارے میں پوچھتے ہیں، میرا تبصرہ مانگتے ہیں،مجھ سے کہتے ہیں کہ ہمارے وطن میں کیا ہوا؟ کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہونے والا ہے؟کیا پاکستان سیاسی اور معاشی مسائل کے بھنور سے نکل آئے گا؟ کیا ہم کبھی حقیقی ترقی سے بھی ہمکنار ہو سکیں گے؟ پی ٹی آئی کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ میں انہیں کیا بتاؤں کہ حالات کیا ہیں اور اصل معاملات کیا ہیں؟ بہرحال میں انہیں بتاتا ہوں کہ فوج ہمارے ملک کا دوسرا نام ہے اور یہ ہماری جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے مگر ملک سیاستدانوں نے ہی چلانا ہے،میں انہیں یہ بھی بتاتا ہوں کہ اگر پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کرنا تھا تو وہ سیاسی لوگوں سے اپنا حساب چکتا کرتے اور پُرامن راستہ اپناتے تو زیادہ بہتر تھا، سیاسی مسائل کا حل سیاسی انداز میں ہی تلاش کیا جانا چاہئے،ان معاملات میں دوسرے اداروں کو ملوث کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے،مگر لوگ نہیں مانتے وہ ان سارے معاملات کو ایک سازش قرار دیتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کوئی زیادہ روشن نہیں ہے، پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے، ایسے واقعات پچھلی دہائیوں اور گزشتہ برسوں میں مقبول جماعتوں کو غیر مقبول بنانے کے لئے پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں، ضیاالحق کے دور میں پیپلز پارٹی کو غیر مقبول کرنے کی کوششیں کی گئیں، پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی دونوں کے ارکان توڑے گئے اور قاف لیگ بنائی گئی، مسلم لیگ (ن) کے تیسرے دورِ حکومت کو جس طرح ناکام اور نواز شریف کو غیر مقبول بنانے کی جو کوششیں کی گئیں وہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ضیاالحق کے دور میں یہ کہا جاتا تھا کہ پیپلز پارٹی بھٹو کے ساتھ ہی ختم ہو گئی، پرویز مشرف نے قاف لیگ بنا کر انہیں کہا تھا کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اب قصہ ماضی ہیں مگر سب نے دیکھا کہ انہیں ختم کرنے کی باتیں کرنے والے خود ختم ہو گئے، مگر یہ جماعتیں اب بھی بڑی جماعتیں ہیں۔ معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ مقبول،معروف اور ہردلعزیز سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو غیر مقبول بنانے کا معاملہ آمرانہ ادوار میں ہی نہیں ہوا یہ سلسلہ جمہوری ادوار میں بھی جاری رہا ہے، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور غیر سیاسی قوتوں کو سیاسی ایشوز میں مداخلت کی دعوت دینے کے معاملات سیاسی اور جمہوری ادوار میں ہی چلتے رہے، کیا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت طے پانے سے پہلے ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچتی رہیں ایک دوسرے کی حکومتوں کو ناکام بنانے کی کوششیں نہیں کرتی رہی تھیں؟
بات کینیڈا میں جشن آزادی کی ہو رہی تھی اور مجھے بہت زیادہ جوش خروش نظر آیا، پاکستانی قونصلیٹ جنرل ٹورنٹو خلیل باجوہ اور ان کے نائب یاسر بٹ نے اپنا مثبت رول خوب نبھایا،انہوں نے پاکستانی نژاد کینیڈین کمیونٹی کے ساتھ مل کر شہر میں مختلف تقریبات منعقد کیں جس کی وجہ سے یوم آزادی پر ہر طرف پاکستانی پرچم لہراتے نظر آئے۔یومِ آزادی کی تقریبات میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے اور ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ پاکستانیوں کی غیر سرکاری تقریبات میں ایک بات میں نے بڑے واضح طور پر محسوس کی کہ پاکستان میں سیاسی حالات جو بھی ہوں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی کثیر تعداد آج بھی پی ٹی آئی کی حامی ہے او ر ان میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ایک لحاظ سے دوسرے ممالک میں پاکستان کے سفیر ہوتے ہیں،وہ اپنے طرزِ عمل اور اپنی باڈی لینگویج سے یہ بتاتے بلکہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کیسا ملک اور وہاں کے لوگ کس طرح اپنے معاملات زندگی چلاتے ہیں۔ یوم آزادی کی تقریبات کے حوالے سے تو یہ عزم اور جوش و جذبہ بڑا واضح نظر آتا ہے کہ ہم اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں میرے خیال میں یہ جذبہ صرف تقریبات میں اظہار تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ زندگی کے ہر گام پر اور زندگی کے ہر موڑ پر اس کا عملی مظاہرہ ہوتا نظر آنا چاہیے، مجھے یہ کہتے ہوئے بڑی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ کینیڈا میں مقیم تارکینِ وطن اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ اور واقف ہیں اور وہ کینیڈا میں پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔
آزادی کا ایک اور دن گزر گیا، ہر سال یوم آزادی منانے کے لئے سرکاری سطح پر مکمل اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہ سکے کہ اسے آزادی منانے کی اجازت نہیں دی گئی۔قائداعظم کی قیادت میں جو آزادی ہم نے چودہ اگست انیس سو سنتالیس میں حاصل کی تھی اسے ہماری بہت سی جماعتوں نے پسند نہیں کیا تھا مگر بعد ازاں وہ بھی مشرف بہ آزادی ہو گئیں، جو جماعتیں اور ان کے قائدین قائداعظم کی دی ہوئی اس آزادی کی حامی ہیں وہ اس آزادی کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔آزادی بہت بڑی نعمت ہے ہمارے پرکھوں اور موجودہ راہنماوں کو اس بات کا تجربہ اور ادراک ہے کہ کسی آزاد ملک میں زیادہ دیر تک کسی کو اس نعمت سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔