بڑھتے ہوئے جرائم : لمحہ فکریہ

شہر میں امن و امان کی صورتحال خاصی مخدوش ہے، آئے روز چوری اور ڈکیتی کی درجنوں وارداتیں ہو رہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ بعض علاقوں میں ڈاکوﺅں کی طرف سے شہریوں کو واردات کے دوران گولیاں مارنے کے واقعات بھی دیکھنے میں آتے رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ذرائع کے مطابق داروغہ والہ کے علاقہ سراج پورہ میں دن دہاڑے موٹر سائیکل سوار ڈاکوﺅں نے تاجر کو گولیاں مار کر قتل کر دیا ۔ تاجروں کے مطابق حاجی انور جٹ صبح نو بجے اپنی دکان پر موجود تھا کہ موٹر سائیکل سوار دو ڈاکو اسکی دکان میں داخل ہوئے اور گن پوائنٹ پر رقم کا مطالبہ کیا ۔ انور جٹ نے انکار کیا تو ڈاکوﺅں نے اس پر فائرنگ کر دی اور فرار ہو گئے ۔ اہل علاقہ اور تاجروں نے انور جٹ کی طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکا ۔ پہلے بھی تین مرتبہ انور جٹ کے ساتھ ڈکیتی کی واردات ہو چکی ہے لیکن پولیس نے کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی۔
اہل علاقہ اور تاجروں نے انور جٹ کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور پولیس سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر قاتلوں کو گرفتار کرے ، گڑھی شاہو میں بھی علامہ اقبال روڈ پر ڈاکو دن دہاڑے الیکٹرونکس کی دکان سے تین لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہو گئے جبکہ مزاحمت پر دکاندار کو زخمی کر دیا ، تاجروں نے ڈکیتی کی واردات کیخلاف پولیس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ رپورٹس کے مطابق علامہ اقبال روڈ پر نصیر سنز الیکٹرونس پر چار ڈاکو اسلحہ کے زور پر داخل ہوئے دکاندار اور گاہکوں کو یرغمال بنا کر لوٹ مار شروع کر دی ۔ مالک نصیر بٹ نے ڈاکوں کو پکڑنے کی کوشش کی تو ڈاکوں نے پستول کے بٹ مار کر اسے زخمی کر دیا اور دکان سے تین لاکھ روپے سے زائد رقم لوٹ کر فرار ہو گئے۔ واقعہ کے بعد دوکانداروں نے علامہ اقبال روڈ پر ٹائر جلا کر احتجاج کیا ۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال روڈ پر ڈکیتی چوری کی وارداتیں معمول بن چکی ہیں جبکہ تھانہ قریب ہونے کے باوجود انہیں تحفظ نہیں فراہم کیا جارہا۔ اس کے علاوہ چوہنگ کے علاقے میں دیرینہ دشمنی پر چوبیس سالہ نصیر کو قتل کر دیا گیا ۔ نصیر بازار جارہا تھا کہ دو مسلح موٹر سائیکل سواروں نے اس پر فائرنگ کردی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا ۔ ان تمام واقعات کے علاوہ عبد القیوم کی سی ڈی70اور شہباز کی125ہنڈا موٹرسائیکل تھانہ شفیق آباد میں گھر کے باہر سے چوری ،ڈاکے کی درجنوں وارداتیں بھی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔
ہمارے خیال میں کافی عرصہ سے لاہور پولیس کا کوئی سربراہی نہیں تھا اس سے قبل نگران حکومت آتے ہی جہاں دوسرے اداروں میں تبادلے کئے گئے وہاں پولیس کے سر براہان کو بھی تبدیل کر دیا گیا۔ الیکشن سرگرمیوں کی وجہ سے بھی پولیس کی توجہ جرائم کی بیخ کنی کی طرف کم ہی رہی جب کہ پولیس کے افسروں اور اہلکاروں کو باز پرس کا بھی اتنا ڈر نہیں تھا۔ نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اب شہر میں نئے سی سی پی ا وچوہدری شفیق احمد کا کہنا ہے کہ غیر قانونی حراست اور تھانوں میں تشدد کے واقعات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور جس تھانے میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تو ذمہ دار اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ایس ایچ او کے خلاف بھی مقدمہ درج کر کے اسی تھانے کے حوالات میں بند کیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ تھانے میں آنے والے سائلوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے اور ان کے مسائل کے حل کی بجائے ان کے لیے پریشانی کا سبب بننے والے پولیس اہلکار خود کو کسی رعایت کا مستحق نہ سمجھیں کیونکہ ایسے پولیس افسروں اور اہلکاروں کی پولیس فورس میں قطعی کوئی جگہ نہیں ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز پولیس لائنز میں ڈی آئی جی آپریشنز اور انوسٹی گیشن ونگ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
شہر میں بڑھتے جرائم کی روک تھام یقینا لمحہ فکریہ ہے۔انہیں چاہیے کہ شہریوں کو آئے روز کی وارداتوں سے نجات دلانے کے لیے پولیس کے افسروں اور اہلکاروں کو محترک کریں۔ جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی اور جرائم کی روک تھام کے لیے پولیس کو ایک بار پھر سر گرمی سے کام کرنا ہوگا۔ تاجروں اور عام شہریوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا پولیس کا بنیادی فرض ہے۔ پولیس کو گشت ، مخبری اور نگرانی کا ایسا نظام قائم کرنا ہوگا کہ شہریوں کو آئے روز کی وارداتوں سے نجات مل سکے ۔ وزیر اعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ وہ پولیس کلچر کو تبدیل کریں گے اور تھانوں میں آنے والے شریف شہری کو عزت دی جائے گی اور تھانے میں مقدمات کے اندراج کے لیے آنے والے شہری کی درخواست پر فوری طور پر ایف آئی آرڈ درج ہوگی اور مقدمہ کی تفتیش میں میرٹ اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ جس تھانے کی حدود میں جوئے کے اڈے اور منشیات فروشی کی اطلاع ملی اس تھانے کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل بھی کریں گے اور اس کے خلاف فرائض میں غفلت برتنے کا مقدمہ بھی درج ہوگا۔ ہر تھانے کے ایس ایچ او کو اپنے علاقے میں جرائم کا ریٹ کنٹرول کرنے کا پابند بنایا جائے۔ ہونا بھی ایسا ہی اس کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر پولیس تھانوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور افسروں و اہلکاروں کو شہریوں سے تعاون کا پابندی بنایا جانا چاہیے۔ ٭