وی پی این۔ اِک مخمصہ
جب سے انٹرنیٹ دنیا میں آیا ہے نت نئی چیزیں رونما ہو رہی ہیں آج سے ایک صدی پہلے جب لوگ کہتے تھے ایک دور ایسا بھی آئے گا جب تصویریں بولیں گی اور ہزاروں میل دور بیٹھا ہوا شخص سامنے بات کرتا نظر آئے گا تو اس قسم کے لوگوں کو پاگل اور دیوانہ کہا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں تیس پینتیس سال کا عرصہ ہوا کہ اس ہوائی ایجاد نے ہماری زندگی میں اپنا رنگ جمانا شروع کیا۔ پہلے پہل جب موبائل فون آئے تھے تو حیرت ہوتی تھی اس چلتے پھرتے بے جان ٹکڑے میں آواز کیسے آ جاتی ہے، کوئی تار نہ کوئی کنکشن اس کے باوجود دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا ہوا شخص دوسرے کونے میں رہنے والے سے صرف ایک نمبر ڈائل کرکے بات کرلیتا تھا۔ جب دنیا میں ایجاد ہونے والا لاؤڈ سپیکر برصغیر میں آیاتو یہاں کے مذہبی پیشواؤں نے اس کے خلاف فتوے دیئے۔ فتوؤں کی بنیاد یہ تھی نماز کے لئے اذان موذن کی زبان سے سننا ضروری ہے، لاؤڈ سپیکر تو ایک مصنوعی آلہ ہے، اس کے ذریعے پہنچنے والی آواز غیر شرعی ہے۔ جب باتیں منطق سے ہٹ کر اور مذہب کی آڑ لے کر کی جاتی ہیں تو ان کا اثر الٹ ہوتا ہے۔ لاؤڈ سپیکرکا استعمال بند نہیں ہوا بڑھتا گیا۔ آج یہ عالم ہے لوگ شکایت کرتے ہیں محلے کا مولوی سارا دن مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر تقریر کرکے ان کی زندگی عذاب بنا دیتا ہے۔ اب تو یہ عالم بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی بڑے عالم دین خطاب کرنے آتے ہیں تو ان کے مصاجین کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا جاتا ہے، ساؤنڈ سسٹم بہت اچھا ہونا چاہیے۔ ایجادات درحقیقت انسانی ارتقاء کا ایک عمل ہیں۔ آپ انہیں زندگی سے نکال کے پتھر کے زمانے میں جانا چاہیں تو اس کے لئے بھی آپ کو جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت پڑے گی۔ کسی بھی ایجاد کو اس کے برے مقاصد کی خاطر استعمال پر غیر ضروری قراردے کر پابندی لگانے کی بات نہیں کی جا سکتی۔ چھری ایک ضرورت ہے کہ اس کے بغیر کسی گھر میں دال روٹی نہیں پکتی، لیکن یہی چھری بعض اوقات کسی انسان کو قتل کرنے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔ اب اس بنیاد پر کوئی یہ فتویٰ جاری کرے کہ چھری رکھنا غیر شرعی ہے تو اس کی بات کون مانگے گا۔ دنیا میں جتنی بھی ایجادات ہوئی ہیں، ان کے مثبت اور منفی پہلوموجود ہیں اسلحہ دفاع کے کام بھی آتا ہے اور اسے قتل و غارت گری کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ انسان اگر دیگر جانوروں سے افضل ہے تو اس کی وجہ اس کا دماغ ہے جو تخلیق بھی کر سکتا ہے اور تخلیقی سرگرمی کو فروغ دینے کے لئے ایجادات بھی سامنے لا سکتا ہے۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو وہ اچھے اور برے کی تمیزسکھاتا ہے۔ وہ برائی سے روکتا ہے اور اچھائی کی طرف راغب کرتا ہے۔ وہ کسی شے کے خلاف نہیں ہوتا بلکہ اس کے غلط استعمال کے خلاف بند باندھتا ہے۔ دنیا میں تمام گھوڑے گھاس کھاتے ہیں اور اس میں حلال حرام کی تمیز نہیں رکھتے۔ البتہ انہیں گوشت کھانے کی توفیق ہی نہیں دی گئی۔ دوسری طرف کتے گوشت کھاتے ہیں اور گھاس نہیں کھاتے کہ ان کی حدود متعین کر دی گئی ہیں۔ یہ انسان ہے جو ہر شے میں ذائقہ ڈھونڈ لیتا ہے؟ بنا لیتا ہے، لیکن بطورمسلمان ہمارے لئے حلال اور حرام کی لکیر کھینچی گئی ہے۔ سور کا گوشت دنیا میں سب سے مہنگائی اور لذیذ سمجھا جاتا ہے، مگر مسلمانوں کے لئے حرام ہے۔ بے شمارایسی چیزیں ہیں جو دیگر قومیں بڑی رغبت سے کھاتی ہیں مگر مسلمان انہیں غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں جب انیدائرڈ فون آئے تو صحیح معنوں میں انفرمیشن ٹیکنالوجی کا سیلاب آ گیا۔ اس سے پہلے انٹرنیٹ کے ذریعے کمپیوٹر چلتے تھے، پھر لیپ ٹاپ بھی آ گئے، تاہم موبائل ٹیکنالوجی نے تو ایک ہنگامہ بپا کر دیا۔ انٹرنیٹ کو چلانا بھی تو ہے، یہ کیسے چلتا اگراس میں کمرشل ازم کی چاشنی نہ رکھی جاتی۔ ایک طرف موبائل فون کمپنیاں، نوکیا، سیسن، اوپو، ٹی سی ایل، ایپل اور دیگر معرض وجود میں آ گئیں جن کا کام موبائل سیٹ فراہم کرنا تھا۔ دوسری طرف اس پلاسٹک کے چھوٹے سے ڈبے میں جان ڈالنے کے لئے سافٹ ویئر بنانے والے ادارے وجود میں آئے۔اربوں روپے کی نئی صنعت نے جنم لیا۔ نت نئے سافٹ وئر بنائے جانے لگے۔ فیس بک، انسٹاگرام، واٹس اپ تو خیر بازی لے گئے اور انہوں نے اربوں صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا، تاہم اس کے علاوہ بھی ہزاروں ایپس بنائی گئیں جو مختلف نوعیت کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ آج آپ کو ہر قسم کی ایپ مل جاتی ہے جس کے ذریعے آپ مطلوبہ کام کر سکتے ہیں۔ یوٹیوب بھی ایک ایسی ہی سروس ہے، جس نے موبائل سکرین کو چلتی پھرتی بولتی تصویروں کا مرکز بنا دیا ہے۔ یوٹیوب پر دنیا جہان کی ویڈیوز، فلمیں اور دستاویزی رپورٹیں پڑی ہیں، آپ جس تک چاہیں رسائی حاصل کر سکتے ہیں یہ آپ کی تربیت ہے جو آپ کو یہ سکھاتی ہے آپ نے کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں دیکھنا۔ آج گوگل کے بغیر ہمارا سفر ناممکن ہو گیا ہے۔ گوگل کی معلومات کو مختلف شعبے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ایپس بنائی گئی ہیں جو گوگل سہولتوں کو صارفین تک رسائی دیتی ہیں۔ یہ ایک وسیع و عریض دنیا ہے، بلکہ دنیا کے مقابلے میں ایک دنیا ہے،جہاں دن رات کام ہو رہا ہے، ایجادات کی جا رہی ہیں اور ہر روز ہم کسی نئی ایپ،کسی نئی ایجاد اور کسی نئی ٹیکنالوجی سے آگاہ ہوتے ہیں۔
اس ساری تمہید کا مقصد اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی طرف سے اس فتوے کی طرف توجہ دلانا ہے جس میں وی پی این کے استعمال کو غیر شرعی قرار دیا گیا ہے۔ وی پی این جو ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس کا مخفف ہے۔ درحقیقت ایک ایپ ہے جو کسی وجہ سے بند کی گئی ویب سائٹس تک رسائی دیتی ہے۔ ایسی اور بھی بہت سی ایپس ہیں جو مختلف مقاصد کے لئے بنائی گئی ہیں جن کی اہمیت ان ممالک میں بڑھ جاتی ہے، جہاں کسی وجہ سے فیس بک، واٹس اپ، یوٹیوب، ٹویٹر (X) اور ممنوعہ ویب سائٹس تک رسائی کو ناممکن بنا دیا گیا ہو۔یہ ایک تکنیکی اور انتظامی مسئلہ ہے۔ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔