عروج سے زوال،ایک غلطی ہی کافی ہے
کل میری ملاقات اپنے بڑے بھائی رائے فاروق سے ہوئی،کینیڈا سے ملتان آئے ہوئے تھے۔ فلمی دنیا کے بہت سے لو گ اُن کے نام سے واقف ہیں، وہ فلمی دنیا کے عروج میں معروف فلم ڈائریکٹر تھے،انہوں نے بہت سی فلمیں ڈائریکٹ کیں جن میں دو بھیگے بدن، بارود خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں۔انہوں نے اپنے دور کے تین معروف ترین اور مقبول ترین ہدایتکاروں شریف نیئر،حسن طارق اور دلجیت مرزا کے ساتھ بطور ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کام کیا۔سلطان راہی کے ساتھ اُن کی دوستی مثالی تھی، وہ اُن سے ملاقات کے لئے بسطامی روڈ پر واقع اُن کی رہائش گاہ پہنچ جاتے اور انہیں دیکھنے کے لئے سینکڑوں لوگ وہاں جمع ہو جاتے۔کل انہوں نے مجھے ایک اہم واقعہ سنایا،اس واقعہ نے مجھے ایک بہت اہم بات سمجھا دی اور میں سوچنے لگا آج بھی کتنے لوگ ہوں گے جو احسان فراموشی کی یہ مثال قائم کر کے اپنی اچھی بھلی ترقی اور آگے بڑھنے کی رفتار کو خود اپنے ہاتھوں تہس نہس کر دیتے ہوں گے،چونکہ قصہ کچھ ایسا تھا کہ میری دلچسپی اور اشتیاق بڑھتا چلا گیا۔ رائے فاروق بھائی نے مجھ سے پوچھا کیا تمہیں پتہ ہے وحید مراد کو زوال کیسے آیا تھا،حالانکہ اُس کی مقبولیت کا سورج نصف النہار پر تھا،میں نے کہا بس اتنا ہی معلوم ہے کہ انہیں فلم سازوں نے کاسٹ کرنا بند کر دیا تھا،اس لئے وہ بددل ہو گئے اور بالآخر بددلی اور مایوسی اُن کی جان لینے کا باعث بنی۔وحید مراد چونکہ میرے دورِ لڑکپن اور جوانی کے سب سے مقبول فلمی ہیروتھے،اُن کے بالوں کا سٹائل اور بیل باٹم پتلون کو دیکھ کر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم اُن کی نقل کرتے تھے،وہ چاکلیٹ ہیرو کے طور پر مشہور تھے،اُن کی نئی فلم آئی تو سینماؤں پر پولیس بلانا پڑتی اور کئی کئی ہفتے پہلے ایڈوانس بکنگ کرائی جاتی،فلم کا آغاز ہوتا تو ڈسٹری بیوٹر پورے ملک سے اُس کے حقوق خریدنے کے لئے فلمساز کے دفتر پر ٹوٹ پڑتے۔آج تک کسی ہیرو کو اتنی پذیرائی نہیں ملی،جتنی ایک دور میں وحید مراد کے حصے میں آئی،لیکن پھر سب نے دیکھا کہ یہی مقبول ترین چاکلیٹی ہیرو زوال کی زد میں آ گیا،فلمیں ملنا بند ہو گئیں۔ پنجابی فلموں کا رُخ کیا، حالانکہ وہ پنجابی فلموں کے ہیرو تھے ہی نہیں،مگر فلم انڈسٹری میں اِن رہنے کے لئے انہوں نے اردو فلموں کے ساتھ پنجابی فلمیں بھی سائن کرنا شروع کر دیں، مگر یہ بھی اُن کے اس زوال کو نہیں روک سکیں جو اُن کی طرف تیزی سے بڑھا اور آندھی و طوفان کی طرح اُن کی مقبولیت کو بہا کر لے گیا۔
آج تک اس کی وجہ سامنے نہیں آئی تھی،مگر کل رائے فاروق بھائی سے ملاقات کے بعد یہ عقدہ حل ہو گیا۔ ایک معمولی سی غلطی اور ایک معمولی سا مقبولیت کا گھمنڈ وحید مراد کو آسمانِ شہرت سے گمنامی کی طرف دھکیلنے کا سبب بن گیا۔رائے فاروق چونکہ حسن طارق کے بہت قریب تھے اور اُن کے سب سے چہیتے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر تھے،اس لئے جب بھی نئی فلم شروع کرتے تو اُس کے سارے معاملات جن میں کاسٹ، موسیقی، کہانی اور پروڈکشن شامل تھے اُن کے ذمے ہوتے۔70ء کی دہائی میں حسن طارق نے فلم ”انجمن“ بنائی،جس کے ہیرو وحید مراد تھے،اس فلم کے لئے وحید مراد کو25ہزار روپے معاوضہ دیا گیا جو اُس زمانے میں بہت ہوتا تھا۔یہ فلم سینماؤں پر لگی تو سپر ہٹ قرار پائی،ہر طرف اس کی مقبولیت کے ڈنکے بج گئے۔خیبر سے کراچی تک اس نے بے مثال بزنس کیا۔اس کے کچھ عرصے بعد حسن طارق نے اپنی اگلی فلم ”تہذیب“ کا افتتاح کیا۔اس میں ہیرو کے لئے ایک بار پھر رائے فاروق کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ وحید مراد سے ایگریمنٹ سائن کریں۔ رائے فاروق بتاتے ہیں کہ انہوں نے پروڈکشن یونٹ کے منیجر محمد رحیم کو ایگریمنٹ فارم دے کر وحید مراد کے پاس بھیجا۔ وحید مراد جنہوں نے انجمن میں 25ہزار روپے معاوضہ لیا تھا۔انہوں نے عمر رحیم سے کہا وہ 50ہزار روپے میں فلم سائن کریں گے۔محمد رحیم واپس آ گیا اور انہوں نے رائے فاروق کو یہ بات بتائی،رائے فاروق کہتے ہیں کہ اُن کے لئے یہ بات حیران کن تھی،کیونکہ وحید مراد حسن طارق کو گھٹنے چھو کر ملتے تھے اور کہتے تھے مجھے وحید مراد بنانے میں اُن کا بہت ہاتھ ہے۔حسن طارق کا رعب اتنا تھا کہ کوئی اُن کے کمرے میں جاتے ہوئے ڈرتا تھا خیر وہ اندر گئے اور انہوں نے بتایا وحید مراد نے کم معاوضے کی وجہ سے فلم سائن کرنے سے انکار کر دیا ہے۔انہوں نے نظر اُٹھا کر دیکھا اور کہا:”استاد کا بھی خیال نہیں کیا، چلو کوئی بات نہیں،میری نظر میں ایک لڑکا ہے شاہد، میں اُسے لے کر فلم بناؤں گا“۔ اداکار شاہد اور رانی کو لیکر انہوں نے فلم تہذیب کا آغاز کیا۔رائے فاروق بتاتے ہیں کہ جس دن باری سٹوڈیو میں فلم تہذیب کی پہلی بار شوٹنگ ہو رہی تھی، وحید مراد سیٹ پر پہنچ گئے انہوں نے حسن طارق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا استاد کیا یہ لڑکا چل جائے گا۔حسن طارق نے جواب دیا یہ چلے گا نہیں دوڑے گا اور تم اس کی گرد راہ میں گم ہو جاؤ گے،اُس وقت وحید مراد کو یہ بات سمجھ نہیں آئی،جب ”تہذیب“ سینماؤں میں لگی تو اس نے مقبولیت کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیئے،اداکار شاہد سپر سٹار بن گئے۔ اس فلم کے فوراً بعد حسن طارق نے امراؤ جانِ ادا کا آغاز کیا۔ ایک دن انہوں نے رائے فاروق سے کہا یہ دونوں فلمیں میں نے وحید مراد کے ساتھ کرنی تھیں، مگر افسوس اُس کی اکڑ اور لالچ اُسے کھا گئی۔امراؤ جانِ ادا ریلیز ہوئی تو اُس نے اُردو فلموں کا مزاج ہی بدل دیا۔رانی اور شاہد کی جوڑی فلموں کی ضرورت بن گئی۔اس کے بعد حسن طارق نے تقریباً آٹھ فلمیں اداکار شاہد کو ہیرو لے کر مزید بنائیں۔ دوسری طرف وحید مراد کو اس عرصے میں کوئی بڑی فلم نہ مل سکی۔ یہی وہ دور تھا جب اُن کے عروج سے زوال کا سفر شروع ہوا۔رائے فاروق بتاتے ہیں اس دوران وحید مراد نے بہت کوشش کی کہ حسن طارق انہیں کسی فلم میں کاسٹ کر لیں، مگر حسن طارق اپنی طرز کے بندے تھے، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وحید مراد نے بلامعاوضہ کام کرنے کی پیشکش کی،مگر وہ ایک غلطی کی وجہ سے جو ٹرین مس کر چکے تھے وہ اُن کے ہاتھ نہ آئی۔ دوسری طرف اداکار شاہد پر فلموں کی بارش ہو گئی اور وہ دوسرے فلم سازوں سے منہ مانگا معاوضہ لیتے تھے،مگر حسن طارق کے سامنے زبان نہیں کھولتے تھے۔
یہ واقعہ سننے کے بعد میرے ذہن میں کئی باتیں آئیں، ہر شخص کی زندگی میں کسی شخص کا کردار بادشاہ گر جیسا ہوتا ہے۔ یہ استاد بھی ہو سکتا ہے،مینٹور بھی،رہبر بھی ہو سکتا ہے اور انگلی پکڑنے والا بھی۔انسان کچھ بھی بن جائے اپنے بادشاہ گر اور استاد کو نہ بھولے،اُس کے سامنے اپنی شہرت کے غرور یا مقبولیت کے زعم میں مبتلا نہ ہو۔اس کے مقابلے میں پیسے کو اہمیت نہ دے،بلکہ اُس کے سامنے سر تسلیم خم رکھے۔ایسے کردار ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں مل جاتے ہیں جو اپنے آغاز اور اپنی اصل کو بھول جاتے ہیں، سیاست ہی کو دیکھ لیں ذرا سی شناخت ملنے کے بعد اپنا گروپ یا جماعت بنانے کی روش کتنے لوگوں کو برباد کر چکی ہے۔کاش وحید مراد ایک چھوٹی سی غلطی نہ کرتے تو انہیں تیزی سے اس زوال کا شکار نہ ہونا پڑتا،جو انہیں مایوسی اور ڈپریشن کے جان لیوا حالات کی طرف لے گیا۔
٭٭٭٭٭