اشتراکیت اور رجعیت
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک مستقل لعنت ہے، مگریہ مسئلہ نہ تو نئے امیر بنانے سے حل ہوسکتا ہے اور نہ ہی چند افراد کو مطلق طاقت سونپ دینے سے غریبی مٹ سکتی ہے۔ مارکس کی معاشی جدلیات برحق اور آپ کی مفلس کے لئے علمی و عملی جدوجہد کو سرخ سلام،مگر لال لال لہرانے سے غریب کبھی سکھ کا سانس نہیں لے سکتا،بلکہ اس کے ذریعے امیروں کا قلع قمع اور اجتماعی تشدد کی فضاء ضرور قائم ہو سکتی ہے، ماضی کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں، یہاں اس کا تذکرہ ہرگز نہیں کروں گا کہ غریبوں ہی کے ہمدرد لینن، سٹالن اور ماؤزے نے کتنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اْتار دیا، مگراتنا ضرور کہوں گا کہ گزشتہ ستر سال میں لال لال لہرانے والوں نے دنیا میں کتنے فیصد غریبی ختم کی اور ان کی جان توڑ جدوجہد کے اب تک کیا نتائج برآمد ہوئے؟ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مَیں رجعیت کا پرچارک ہوں۔مذہبی ریاستوں اور مذہب کے مدعی مقتدر طبقے کا حال بھی دنیا دیکھ چکی ہے، یہ دور اور آنے والا دور صرف یونیورسل اکانومی طبقے یعنی عالمگیر معیشت اور خالص جمہوری و ارتقائی مراحل سے مسائل حل کرنے کا ہے، سرخ، سفید اور سیاہ انقلابات کے زمانے اب لد چکے، اب صرف وہی تبدیلی قابلِ قبول ہو گی جو عوامی اور جمہوری اقدار کی بنیاد پر علم و تحقیق سے حاصل ہو گی۔
گزشتہ چند دنوں سے یونیورسٹیوں کے طلبہ نے متخیل انقلاب کے نام پر جو غل عپاڑہ مچا رکھا ہے، سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ اب کون سا کہرام مچانے کی تیاری ہو رہی ہے، تعلیم برائے تہذیب ہی کسی تعلیمی ادارے کا جوہر ہوتی ہے،مگر ہمارے ہاں سارا کچھ اْلٹ پلٹ ہو رہا ہے۔درسگاہیں سیاسی اڈے بن چکے ہیں، جن میں چند مفاد پرست سیاستدان اپنے اپنے جتھوں کو منظم کرکے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اشتراکیت کی بنیاد مطلق جبر پر قائم ہے گوکہ اس کا مقصد نیک ہے،مگر کسی بھی نیک مقصد تک رسائی کے لئے انتہائی بنیادی اور عالمگیر اخلاقی اقدار کو بائی پاس نہیں کیا جا سکتا۔ جدید دنیا میں تشدد کی کوئی بھی صورت اب قابلِ قبول نہیں رہی اور نہ ہی انقلاب جیسی ہولناک اصطلاح اب مزید مروج ہو سکتی ہے۔ مارکس اور لینن کو تو اب روسیوں نے بھی پڑھنا چھوڑ دیا ہے، جبکہ ہمارے ہاں مذہبی رجعت پسندی کی طرح اشتراکی رجعت پسندی بھی باقی ہے۔ جدید دنیا میں فلاحی ریاست کی شاندار انتظامی تمثیل نے پوری دنیا کو ایک گلوبل ویلج بنا دیا ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہوں، آپ کو دنیا کی کوئی بھی فلاحی ریاست خوش آمدید کہے گی،بغیر آپ سے آپ کی نظریاتی، سیاسی، نسلی اور مذہبی وابستگی پوچھے۔
دنیا لال لال لہرا کر ویلی ہو چکی،کیا اس علمی و اخلاقی لحاظ سے مفلوج ریاست میں لال لال لہرانے سے تبدیلی آ جائے گی؟ بچوں کے پڑھنے اور سیکھنے کے دن ہیں، معلوم نہیں ان معصوموں کو کن چکروں میں پھنسا رہے ہیں یہ اَنا پرست۔ گزشتہ دنوں آزادی مارچ کی صورت میں مولانا کا رجعتی انقلاب بھی دیکھ لیا۔ عوام نے، رجعیت اور اشتراکیت دونوں کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے، نظامِ خلافت، ریاستِ مدینہ اور لال لال انقلاب کی پھکیاں اب بکنے والی نہیں، ملک میں بارہا رجعیت اور اشتراکیت دونوں کے بڑے زبردست تجربات ہو چکے ہیں اور دونوں کا نتیجہ کیا مثبت نہیں رہا، ذوالفقار علی بھٹو اشتراکیت اور جنرل ضیاء الحق رجعیت کے زبردست داعی بن کر سامنے آئے، مگر دونوں ہی اپنے نظریات سمیت عوام کی عدالت میں راندۂ درگاہ ہو گئے، عوام اب مزید کوئی خطرناک شغل برداشت نہیں کر سکتے، یہ پاور گیم کا سلسلہ اب روکنا ہو گا۔ ہمیں اب اپنی نئی نسل کو مزید مس گائیڈ ہونے سے بچانا ہو گا۔
نئی نسل کو علم و تحقیق اور اخلاقیات کی بنیاد پر دنیا کے سامنے اپنا بیانیہ رکھنا ہو گا۔ اختلاف اور مخالفت میں باہم فرق سکھانا ہو گا۔ تہذیب اور مزاحمت کے بیچ ادب کی باریک لائن سمجھانا ہو گی، تبھی کچھ تبدیلی ممکن ہو پائے گی،علاوہ ازیں کوئی صورت نہیں۔ اِس وقت معیشت اور تعلیم ہمارے دو انتہائی بنیادی مسائل ہیں جن کو بہرصورت ارتقائی مراحل سے ہمیں حل کرنا ہے۔ محض نظریات اور متخیل انقلاب کے ہنگامہ خیز نتائج یہ قوم بارہا دیکھ چکی ہے۔ آنے والی تازہ روحوں کو مزید جھوٹ اور شرارت کی متعفن فضاء میں چھوڑ کر جانا قوم کے اصحابِ دانش و بینش کے لئے بدترین اخلاقی جرم ہے۔ بہت ہو گیا، دنیا کی کوئی بھی قوم اْس وقت تک حقیقی ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ ماضی کی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرکے حال میں درست فیصلے نہیں کر لیتی، بالکل یہی بنیادی مسائل اس خطے کے ذہین لوگوں نے اس پوری مجتمع قوم کو سمجھائے تھے، اقبال فرماتے ہیں:
وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے
وہ قوم نہیں لائقِ ہنگامہِ فردا
جس قوم کی تقدیر میں اِمروز نہیں
ہم نے اْنہیں بھی نہیں بخشا، جنہوں نے ہمیں جھنجھوڑ کر سیدھے راستے پر لانے کی کوشش تھی۔ دنیا جہان کے جھوٹ اور بہتان تراش کر اْن کے متھے لگا دیئے۔ اشتراکیت اور رجعیت دراصل دو انتہاؤں کا نام ہے اور دونوں قوتِ متخیلہ سے منسلک ہیں۔ اشتراکی کہتے ہیں کہ مذہب عوام کا استحصال کرکے اْنہیں مفلسی کی طرف دھکیل رہا ہے، جبکہ رجعتی کہتے ہیں کہ دہریت ہی سارے فساد کی جڑ ہے۔ گویا دونوں ہی ایک دوسرے کی زبردست مزاحمت پر قائم ہیں۔ فی زمانہ سرمایہ دارانہ نظام میں بے پناہ اخلاقی جرائم کا اضافہ ہو چکا ہے، جب سے ٹریکل ڈاؤن اکنامکس کی تھیوری نے جنم لیا ہے غریب غریب تر اور امیر امیر ترین بنتا جا رہا ہے اور ہر نوعیت کے وسائل محض چند ہاتھوں میں سمٹتے جا رہے ہیں۔ اس مکروہ پالیسی کو روکنے کے لئے ہمیں یونیورسل اکنامکس کی طرف آنا ہو گا، جیسے ٹیکنالوجی نے آج دنیا کو ایک ورچوئل ویلج کی شکل دے دی ہے، بالکل ایسے ہی اب اکنامکس کا قبلہ بھی ایک عالمگیر معاشی ارتقائی تحریک کے ذریعے درست کرنا ہو گا، کیونکہ دنیا میں کوئی بھی علمی، اخلاقی، سماجی اور معاشی تبدیلی صرف ارتقائی مراحل سے ہی وقوع پذیر ہوسکتی ہے جو تبدیلیاں ہنگامہ خیز واقعات سے جنم لیتی ہیں، اْن کی مدت بھی برائے نام ہوتی ہے،یہی اہم نکتہ آج ہمیں اپنی نئی نسل کو سمجھانا ہو گا۔