وزیراعلیٰ مریم نواز واپس آ کر پھر سے سرگرم!
شدید ترین سموگ کے بعد گزشتہ دو تین روز سے یہاں دھوپ نکل رہی ہے۔اگرچہ درجہ حرارت میں بھی کمی ہوئی ہے تاہم ابھی تک سردی کا احساس نہیں ہوا،البتہ آلودگی کی شرح میں بڑی حد تک کمی ہوئی جس کی وجہ سے صوبائی حکومت نے کھانے پینے کی دکانوں اور ریسٹورنٹوں سے وقت کی پابندی ختم کی ہے اور اب ان کو آٹھ بجے رات کی بجائے دس بجے تک کاروبار کی اجازت دے، تاہم لاہور اور ملتان ایسے شہر مانے گئے ہیں جن میں سموگ کا معیار ابھی غیر صحت مند ہے،بہرحال لاہور ملتان سمیت باقی شہروں میں تعلیمی اداروں کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے، اِس سلسلے میں حفاظتی انتظامات کا ذکر کیا گیا ہے، طلباء و طالبات کے لئے گھر پر ای ایجوکیشن کی ہدایت تھی،لیکن تعلیمی اداروں کے پاس مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ان طلباء و طالبات کا وقت بھی ضائع ہوا ہے، جبکہ پرائمری جماعت والے بچے والدین کا مسئلہ بن گئے ہیں ان کو چھٹیاں منانے کا موقع مل گیا تھا۔ اب پورے پنجاب میں تعلیمی ادارے کھول دیئے گئے ہیں اور سکول آنے والے بچوں میں ماسک کی پابندی کو یقینی بنانے کے بھی احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔ فضائی آلودگی میں کمی توآ چکی ہے مگر ابھی بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صوبائی حکومت نے بہت محنت کی،دھواں دینے والے اینٹوں کے بھٹے اور بعض صنعتوں کو بند کریا گیا، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دھواں دینے والی گاڑیوں کے بھی چالان کئے گئے،اس کے باوجود لاہور کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں کے ٹریفک وارڈنزکو سموگ سے زیادہ چالانوں کی فکر ہے اور وہ بڑے چوراہوں پر سڑک سے ہٹ کر کھڑے ہوتے اور ہیلمٹ نہ ہونے پر موٹر سائیکل سوار کو روک کر چالان کرتے نظر آتے، ٹریفک پولیس نے اپنی طرف سے ٹریفک کی روانی کے لئے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں لیکن ایسا ہو نہیں سکا کہ اب ٹریفک وارڈنز کو شاید ضرورت نہیں، وہ ٹریفک پر توجہ کی بجائے موٹر سائیکل سواروں ہی کی شامت ہی لائے رکھتے ہیں اور یہاں اشاروں اور یکطرفہ ٹریفک کی خلاف ورزی عام ہو گئی ہے۔ کینال کے دونوں اطراف کی سڑکوں پر عموماً ٹریفک جام ملتی یا پھر بہت ہی سست رفتاری سے چلتی ہے، ڈرائیور حضرات لین کی پابندی نہیں کرتے اگر قطار بندی درست ہو تو ان سڑکوں پر بھی ٹریفک جام کا سلسلہ بہت کم ہو سکتا ہے، کنال والی سڑکوں پر ٹریفک کے دباؤ کی وجہ درحقیقت شہر کے جنوب کی طرف ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار ہے ان تک جانے کیلئے کینال روڈ ہی واحد بہتر راستہ ہے یا پھر ملتان روڈ جو گنجان شہری آبادی سے ہو کر ٹھوکر نیاز بیگ تک جاتی ہے،آبادی کے پھیلاؤ کی اجازت دی گئی لیکن ان کے لئے کوئی نیا راستہ یا رابطہ سڑک نہیں بنائی گئی، دباؤ پہلے سے موجود سڑکوں پر ہے جن کو چوڑا کر دیا گیا ہے اس کے باوجود دباؤ زیادہ ہے۔
پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز سوئٹزر لینڈ میں اپنے گلے کا علاج کرانے اور لندن میں قیام کے بعد والد محمد نواز شریف کے ساتھ واپس پہنچ گئی ہیں اور انہوں نے آتے ہی عوامی بہبودکی نئی سکیموں کا اجراء شروع کر دیا ہے تاہم شہر کی حالت درست کرنے کی غرض سے ایل ڈی اے،میٹرو پولیٹن کارپوریشن، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے علاوہ سبزے کی ذمہ دار پی ایچ اے نے اس کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا جو ان کے فرائض میں شامل ہے ان اداروں کا نچلی سطح کا عملہ بدستور لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ پی ایچ اے بڑے بڑے اعلان کر کے پبلسٹی کر رہی ہے لیکن اس کی طرف سے عملی کام نہیں ہو رہا۔گزشتہ برسات کے دِنوں میں شہر کی مختلف آبادیوں میں پارکوں کی دیواریں گر گئی تھیں۔ پی ایچ اے کا عملہ جنگلے اُٹھا کر لے گیا،اینٹیں وہی پڑی ہیں اور پارک بھدے ہو گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کو ادھر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ عملدرآمد والی مشینری کو کام پر مجبور کیا جائے۔
جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو لاہور ابھی تک خاموش ہے اور یہاں سیاسی سرگرمیاں نہیں ہو رہیں۔ اگرچہ محافل میں لوگ بات کرتے ہیں، تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی24نومبر والی کال کے حوالے سے بھی یہاں کوئی ہلچل نظر نہیں آئی،نچلے پیمانے پر کوئی حکمت عملی ہو تو وہ ظاہر نہیں ہے،بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔بہرحال دفعہ144موجود ہے۔
٭٭٭
مفید عوامی منصوبوں کا اعلان،لیکن نچلی سطح پر لاپرواہی جاری ہے
شدید سموگ کے بعد آلودگی کے معیار میں کمی،دھوپ بھی نکل آئی!
لاہور اور ملتان سمیت باقی شہروں میں تعلیمی ادارے کھل گئے!
وارڈنز صرف چالان کرتے ہیں، ٹریفک میں
دلچسپی ہے نہ ہی دھوئیں والی ٹرانسپورٹ کی فکر