بلوچ گمشدگان، سیون سسٹرز اسٹیٹس اور گریٹر بنگال

  بلوچ گمشدگان، سیون سسٹرز اسٹیٹس اور گریٹر بنگال
  بلوچ گمشدگان، سیون سسٹرز اسٹیٹس اور گریٹر بنگال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دونوں چیف اور اس خاکسار کا تعلق ایک ہی برادری سے ہے۔ کوئی اور سمجھے نہ سمجھے، جنرل عاصم منیر اور جنرل عاصم ملک میری بات بخوبی سمجھ جائیں گے، یقینا عمل بھی کریں گے۔ نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب اور رنگ سے ہزاروں کوس کی دوری پر مقیم ہماری برادری ہی وہ برادری ہے جو ملک کی محافظ ہے۔ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اگر کوئی حافظ قرآن ہو تو اس کے دل میں کچھ ملائمت تو ہو گی، دل میں کچھ گداز یقینا ہوگا۔ اللہ رؐسول کے ہاں جوابدہی کا کچھ احساس تو ہوگا۔ ادھر جنرل عاصم ملک جس باپ کے بیٹے ہیں اس کے حق میں میرے پاس ڈاکٹر محمود احمد غازی اور ڈاکٹر محمد میاں صدیقی رحمہم اللہ کی دو طاقتور گواہیاں موجود ہیں۔ ان گواہیوں کو میں نے مقامی روزمرے "کٹورے پہ کٹورا بیٹا باپ سے بھی گورا" سے چمکایا لشکایا تو پوٹھواری "خان"، بمعنی محاورے نے بھی غوغا مچا دیا: "اونٹھ چالئیں تے ٹوڈا بیتالئیں " ڈاکٹر غازی اور ڈاکٹر صدیقی دونوں محترم جنرل غلام محمد ملک کی اسلامی حمیت کے رطب اللسان رہا کرتے تھے۔ ان دو نہایت معتبر گواہیوں کی روشنی میں اس "خان" کا ترجمہ کچھ یوں ہوا کہ اگر بڑے ملک صاحب کی اسلامی حمیت 40 گیگا بائٹ کی ہے تو چھوٹے ملک کی وہی حمیت 42 گیگا بائٹ، (بلکہ کچھ زیادہ ہی) ہوگی۔

یہاں میں الہامی فرمان کا سہارا لوں گا۔ میرے یہ دونوں ممدوح بخوبی سمجھ جائیں گے۔ محرم راز خالق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے(متفق علیہ). میرے یا ان جرنیل صاحبان کے بچوں میں سے کوئی ایک بچہ دو تین دن بغیر بتائے گھر نہ آئے تو بتائیے ہمارا کیا حال ہوتا ہے۔ جواب اور حدیث رسولؐ ذہن میں رکھ کر بتائیے کہ بلوچ ماؤں کے ہزاروں بچے کیوں لاپتا ہیں۔ محترم جرنیل صاحبان ان ہزاروں ماؤں کا دکھ سمجھ کر لاپتا افراد کو منظر عام پر لانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ان لاپتا افراد کا معاملہ یقینا دو اور دو چار کا نہیں، نہایت پیچیدہ اور گنجلک مسئلہ ہے۔ ہمارے بوسیدہ نظام عدل میں ایسے ملزموں سے نمٹنا اور مجرموں کو قانون کے شکنجے میں کسنا آسان نہیں ہے، لیکن مدت غیر معینہ تو کیا، محدود مدت کے لیے بھی ملزم کو محبوس رکھنے کا تصور تو دنیا کے کسی نظام میں نہیں ملتا۔ جس شریعت پر ہم تینوں کا ایمان ہے اس میں تو مجھے سزائے قید کا تصور بھی نہیں ملا۔

میں جس شریعت سے واقف ہوں اس میں, بعض استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر, قید اور زندان کا تو کوئی تصور ہی نہیں،یہ اس لیے ہے کہ اکیلا فرد پورے خاندان اور برادری سے جڑا ہوتا ہے۔ شریعت اسے ہر حال میں زندہ اور آزاد رکھنے کا اہتمام کرتی ہے۔ جس فوجداری نظام پر ہم تینوں کا کامل ایمان ہے اس کی سنگین سزاؤں میں حدود اور قصاص کی سزائیں ہیں۔ سات حدود میں سے کوئی ایک حد بتائیں جس میں سزائے قید دی جاتی ہو۔ قتل اور مہلک ترین زخموں میں بھی ادلے کا بدلہ والا اصول ہے۔ متاثرہ شخص یا اس کے لواحقین چاہیں تو مالی تاوان لے سکتے ہیں۔ سزائے قید یا زندان تو بہت بعد کی ریاستی اپچ ہیں۔ آپ میں سے کون پسند کرتا ہے کہ اس کے بچے غائب ہو جائیں؟ کوئی بھی نہیں، محترم جرنیل صاحبان اگرچہ یہ مزمن مرض آپ سے پہلے کا ہے لیکن میں نے تو آپ ہی سے مخاطب ہونا ہے۔ مرض اس شدید درجے کا ہے کہ حالیہ مجوزہ آئینی ترمیم کے دنگل میں ارکان پارلیمان جب اربوں کے ٹینڈر داخل کر رہے ہیں تو سینیٹر اختر مینگل بولے: "لاپتا بلوچ رہا کر کے میرا ووٹ مفت لے لو"۔ اس سے بڑھیا مثال میں اور کیا دوں؟ محترم جرنیل صاحبان، لاپتا افراد اور حدیث نبوی کی روشنی میں کیا آپ اپنے ایمان کا جائزہ لینا پسند کریں گے؟

ملک کو لاحق متعدد مزمن امراض میں سے ایک بڑا مرض لاپتا افراد کا ہے۔ ان کے متعدد زمرے ہو سکتے ہیں۔ایک وہ لوگ ہیں جن پر سنگین درست الزامات ہیں لیکن بوسیدہ نظام عدل کو قبول نہیں۔ پھر وہ لاپتا افراد ہیں جو از خود غائب رہ کر ملک دشمن بنے ہوئے ہیں۔ پتا نہ ہونے کے سبب "سول سوسائٹی" اور بے سوچے لکھنے والے بلا تکان ان کے حق میں لکھے جا رہے ہیں۔ اس کی مثال ماہ رنگ بلوچ کے بعض لاپتا افراد ہیں۔ ایرانی میزائل حملے کے جواب میں ہمارے میزائل سے ایران کے اندر مرنے والے چند لوگ وہی تھے جو ماہ رنگ بلوچ کی فہرست میں درج تھے۔ تیسرا زمرہ  ورغلائے گئے ان معصومین کا ہے جو کسی وقتی سوچ یا ذہنی جوار بھاٹے کے باعث جرم کر کے پشیمان ہوتے ہیں۔ دو ہفتے قبل ریاستی اداروں کی بازیاب کردہ عدیلہ بلوچ اس کی عمدہ مثال ہے۔

میرے ممدوح دونوں چیف ابتدا میں عدیلہ بلوچ والے تیسرے زمرے کے لاپتا افراد کو خاموشی سے صوبائی حکومت کو دے کر حکومت پر اعتماد کریں۔ وہ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے میں آپ۔ اس زمرے کا فیصلہ ہو جانے پر بھی انہیں نگرانی میں رکھیں۔ یوں  اختر مینگل کا آدھا مسئلہ حل ہو جائے گا۔زمرہ دوم کے لوگوں کی معلومات حساس اداروں کے پاس ہونا چاہئیں کہ وہ کس ملک میں رہ کر کیا کر رہے ہیں؟ یہ معلومات ذرائع ابلاغ پر خوب شائع کی جائیں۔ اس وقت بلوچ لبریشن آرمی کے خطرناک دہشت گرد عبدالغفار لانگو کی بیٹی ماہ رنگ بلوچ چور مچائے شور کا عملی نمونہ بنی ہوئی  ہیں۔ جمہوریت خور قلم کار اور جرنیل دشمن اینکر وغیرہ دن رات اپنی جہالت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ یہ  افراد نادانستگی میں ملک دشمن افراد کی وکالت کرتے ہیں۔ یوں اختر مینگل کی باقی نصف شکایات ختم ہو جانا لازم ہے۔ رہا پہلا زمرہ تو ان لوگوں پر جہاں ممکن ہو فوجی عدالتوں میں، ورنہ عام عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں۔ یہ لوگ شاید  درجنوں ہی میں ہوں۔ تا ہم مجھے اپنی معلومات پر اصرار نہیں ہے۔

محترم جنرل صاحبان ہمارے مغرب میں افغان مقتدرہ کی مدد سے بھارت ہمیں تگنی کا ناچ نچا رہا ہے. بنگلہ دیش میں انقلابی تبدیلی کے بعد بھارت کے مشرق میں ہمیں کہیں بہتر مواقع حاصل ہو چکے ہیں۔ آزادی کی خواہش مند انڈین سیون سسٹرز  اسٹیٹس (اروناچل پردیش، آسام، ناگالینڈ، میزورام، میگھالیہ، منی پور، تریپورہ) میں بھارت کو سنگین اور لاینحل مسائل درپیش ہیں۔ وہاں آزادی کی تحریکیں اتنی آگے جا چکی ہیں کہ ہمیں ان کے شمال میں چین اور مغرب میں بنگلہ دیش کی مدد سے گرتی ہوئی دیواروں کو دھکا دے کر پچھلا حساب برابر کرنا ہے۔ بنگلہ دیش کی کل آبادی اور بھارتی بنگال کی معتدبہ آبادی کے لیے سیون سسٹر اسٹیٹس ملا کر گریٹر بنگال کا خواب قدیم  اور سہانا ہے، لیکن ضروری ہے کہ ہماری مقتدرہ پہلے بلوچ لاپتا افراد کا معمولی سا مسئلہ نمٹالے، پھر ادھر خوب توجہ کرے۔ بنگلہ دیش اگر مشرقی پاکستان نہ بن سکا تو ہمارے اور بنگالیوں کے لیے گریٹر بنگال کافی ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -