خوامخواہ کی مخالفت
ہمارے معاشرے میں خوامخواہ کی مخالفت کی روش عام ہو گئی ہے اور مخالف کے لئے کوئی کلمہ خیر کہنے سننے کو نہیں ملتا، ان دنوں پارلیمنٹ میں آئینی عدالت کے قیام کے لئے ایک بحث جاری ہے،۔ جہاں جائیے حکومت اور حکومتی اتحاد کے مخالف حلقے ایک ہی بات کرتے نظر آتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی بات وہ حلقے کہہ رہے ہیں جن کا آئین اور قانون سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ مختلف عدالتوں میں ان کے مقدمات گزشتہ کئی کئی برس سے پھنسے ضرور ہوئے ہیں۔
پچھلے دنوں ہمیں ایک ایسے ہی تاجر بھائی سے ملاقات کا موقع ملا جس کی دکان اورنج لائن ٹرین کے پراجیکٹ کی زد میں آگئی تھی اور ابھی تک ایل ڈی اے نے معاوضے کی ادائیگی نہیں کی ہے کیونکہ دکان ان کے قبضے میں تو تھی مگر سیٹلمنٹ ریکارڈ میں ان کے نام نہ تھی، اب وہ کئی برسوں سے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں تاکہ ایک تو دکان کی ملکیت اپنے نام کرواسکیں اور دوسرا ایل ڈی اے سے معاوضہ لے سکیں، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ وہ بھی آئینی عدالت کے قیام کے مخالف ہیں۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ حکومت کو غریب آدمی کی کوئی فکر ہی نہیں ہے، لوگوں کو روزگار کے مسئلے پڑے ہوئے ہیں اور حکومت ترمیموں کے چکر میں پھنسی ہوئی ہے تاکہ اپنی مرضی کے فیصلے لے سکے، ہم نے عرض کی کہ آئینی عدالت کے بن جانے سے تو اچھا ہوگا کہ لوگوں کے عدالتی مقدمات کا جلد فیصلہ ہونا شروع ہو جائے گا، آپ کا تو اپنا مقدمہ اتنے سالوں سے پھنسا ہوا ہے۔ کہنے لگے کہ وہ بات تو درست ہے مگر یہ حکومت ٹھیک نہیں کر رہی ہے، اسے غریب آدمی کا کچھ خیال ہی نہیں ہے کہ اس کے پاس کھانے کو زہر تک نہیں،ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ آپ نے ابھی جو کھانا تناول کیا ہے اس میں تین طرح کے پکوان شامل تھے، پھر آپ کو زہر کھانے کی کیاضرورت ہے۔ کہنے لگے میں اپنی نہیں، عام آدمی کی بات کر رہا ہوں، مزدور کی بات کر رہا ہوں، غریب کی بات کر رہا ہوں۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آپ میدان سیاست میں اترنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو عام آدمی کی فکر کھائے جارہی ہے، اس پر مسکرا کر کہنے لگے، نہیں یہ بات تو نہیں لیکن حکومت ٹھیک نہیں کر رہی ہے۔
اسی طرح ہمارے اخبار کے دفتر میں ایک روز ایک کسان رہنما ملنے چلے آئے، آتے ہی کہنے لگے کہ آپ ہماری خبریں ہی نہیں لگاتے ، بس ان کی خبریں لگاتے ہیں جو آپ کو پیسے دیتے ہیں۔ ہم نے عرض کی کہ باجوہ صاحب، پیسے نکالیں آپ کی بھی خبر لگادیتے ہیں، کہنے لگے کہ میں تو ویسے ہی کہہ رہا تھا وگرنہ میرے پاس کہاں سے پیسے آئے۔ پھر حالات کا رونا رونے لگے کہ ان کی کپاس کی فصل تباہ ہو گئی ہے، گندم کے پیسے انہیں مناسب نہیں ملے ہیں، حکومت کو کسانوں کی کوئی فکر نہیں ہے اور آپ ہماری خبر ہی نہیں لگاتے ہیں۔ہم نے ان کے حلئے پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ باجوہ صاحب آپ نے جو لباس زیب تن کیا ہے وہ کم از کم دس بارہ ہزار کا ضرور ہے، جوتے بھی کم ازکم چار ہزار کے ہوں گے، موزے اور گلے میں لٹکی عینک بھی کچھ کم قیمتی نہ ہوں گے، ایک اعتبار سے آپ اس وقت کم از کم بیس پچیس ہزار کی مالیت کی چیزیں پہنے بیٹھے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ آپ لٹ گئے ہیں، برباد ہو گئے ہیں اور حکومت کو آپ کی کوئی فکر نہیں، میں آپ کی یہ بات تب مانتا اگرآپ کے گلے میں پھٹی ہوئی بنیاں ہوتی، آپ نے نیچے پھٹی ہوئی لنگی پہنی ہوتی اور آپ کے بال مٹی میں اٹے ہوتے اور پاؤں میں دیدہ زیب جوتوں کی بجائے پھٹی ہوئی چپل ہوتی۔ تب تو آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی اور میں دیکھتے ہی آپ سے پوچھتا کہ باجوہ صاحب، خیریت ہے، اس بدحالی کا سبب کیا ہے؟ اس پر بغلیں جھانکنے لگے اور ادھر ادھر کی مار کر رخصت ہو گئے۔
ہمارا یہ رویہ اب بہت عام ہو چکا ہے۔ جب میں نے یہی بات ایک اور محفل میں سنائی جہاں ایک سوٹڈ بوٹڈ صاحب حکومت کے لتے لے رہے تھے تو کہنے لگے کہ ہو سکتا ہے کہ میرے پاس ایک ہی ڈھنگ کا لباس ہو، آپ اس کو دیکھ کر ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ میں نے ان سے اتفاق کیا لیکن عرض کی کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں، ہماری مجموعی حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہمیں رونا تو نہیں آتا مگر ہم نے رونے والا منہ ضرور بنایا ہوا ہے۔
اب عالم یہ ہے کہ پوری پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمٰن کے صدقے واری جار ہی ہے اور کہنے کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر ان کے ہیں۔ بجائے اس کے مولانا ان کے در پر حاضری دے رہے ہوتے، الٹا پوری کی پوری پی ٹی آئی مولانا کے دروازے پر بیٹھی ہے کہ آپ نے آئینی ترمیم پر حکومت سے اتفاق نہیں کرنا اور کسی طرح نومبر کا مہینہ نکلوادیں، پھر آپ ہمارے چمتکار دیکھئے گا۔ پی ٹی آئی ایسی ہی شعبدہ بازیاں وقتی فائدوں کے لئے تسلسل سے کئے جا رہی ہے، کبھی جنرل فیض حمید کا دم بھرتی ہے تو کبھی ان سے اظہار لاتعلقی کرتی ہے۔ کبھی جنرل باجوہ کے گن گاتی ہے توکبھی ان کو میرجعفر کہتی نظر آتی ہے، اس دو عملی نے اور بے مقصد کی سیاست نے معاشرے کا سکون ختم کردیا ہے۔ پی ٹی آئی کی ایسی سیاست پر پابندی لگادینی چاہئے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری!