ڈاکٹر اے بی اشرف کے لئے یادگار تقریب!

  ڈاکٹر اے بی اشرف کے لئے یادگار تقریب!
  ڈاکٹر اے بی اشرف کے لئے یادگار تقریب!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  کیا ہی زندہ،شاندار اور جاوداں تقریب تھی،جو ڈاکٹر اے بی اشرف کے تعزیتی ریفرنس کے لئے اکادمی ادبیات ملتان اور ملتان آرٹس کونسل کے اشتراک سے منعقد ہوئی۔ اس تقریب کے لئے مشاورت،  انتظامات اور کاوشیں کئی دِنوں سے جاری تھیں۔رانا محبوب اختر، نعیم اشرف، شوکت اشفاق،اظہر سلیم مجوکہ، سلیم قیصر اور راقم الحروف اس پر مشاورت جاری رکھے ہوئے تھے، صدارت کے لئے قرعہئ فال ملتان کے سینئر ترین نقاد، محقق اور استاد الاساتذہ ڈاکٹر اسد اریب کے نام نکلا، مہمانانِ خصوصی میں ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر طارق محمود انصاری اور ڈاکٹر مختار ظفر شامل تھے۔ تقریب میں اُس وقت جذباتی کیفیت پیدا ہو گئی جب ڈاکٹر اے بی اشرف کے لئے اُن کے فرزند پروفیسر نعیم اشرف کے محبت میں ڈوبے مضمون کو پڑھنے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔اس مضمون میں نعیم اشرف نے جس طرح اپنے عظیم والد کی شخصیت کا احاطہ کیا اس نے ہال میں موجود سامعین پر ایک سحر طاری کر دیا۔ ڈاکٹر اے بی اشرف اردو زبان کی مایہ ناز اور عالمی شہرت کی حامل شخصیت تھے جن کا گذشتہ ماہ90سال کی عمر میں ترکی کے شہر انقرہ میں انتقال ہوا جہاں وہ پچھلے38 برس  سے اردو کی تدریس سے وابستہ تھے۔انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے کیا تھا،وہ شعبہ اردو کے چیئرمین رہے،جہاں سے انہیں  اردو چیئر انقرہ یونیورسٹی میں ڈیپوٹیشن پر جانے کا موقع ملا،جس کے بعد اہل ترکی نے انہیں اتنی محبتیں دیں کہ وہ وہیں کے ہو کرر ہ گئے،تاہم اُن کا دِل پاکستان اور ملتان کے لئے دھڑکتا تھا۔اُن کی درجنوں کتابیں ہیں اور ہزاروں شاگرد دنیا بھر میں موجود ہیں۔ اُن کی وفات پر پوری دنیا کے ادبی حلقوں میں افسوس کا اظہار کیا گیا۔ملتان میں اُن کے چاہنے والوں، شاگردوں اور عزیز و اقارب کی بڑی تعداد موجود ہے۔اس شہر پر اُن کا قرض بھی تھا،اس لئے اُن کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد ضروری سمجھا گیا۔

اِسی تقریب میں ڈاکٹر اے بی اشرف کے بارے میں اظہارِ خیال کرنے کی خواہش ہر شخص میں موجود تھی تاہم وقت کی قلت کے پیش ِ نظر محدود لوگوں کو موقع ملا۔ روزنامہ ”پاکستان“ کے شوکت اشفاق نے تقریب میں یہ اعلان کیا کہ لوگوں کی محبت اور جذبات کے اظہار کی خواہش کو دیکھتے ہوئے جلد ہی ایک اور بھرپور تقریب منعقد کی جائے۔اِس اعلان کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا یہ تقریب کئی حوالوں سے یادگار رہی۔مسلسل چار گھنٹے ادبی بیٹھک کے کھچا کھچ بھرے ہال میں جاری رہنے والی اس تقریب میں ہر شخص ڈاکٹر اے بی اشرف کی شخصیت کے گوشوں کی رونمائی پر اُن سے متاثر ہوا تھا۔شاہدہ پیر زادہ شیگی جو خود بھی ایک تخلیق کار ہیں، نے بتایا وہ ڈاکٹر اے بی اشرف سے کبھی نہیں ملیں نہ ہی انہیں کبھی دیکھا، مگر اس چار گھنٹے کی تقریب نے اُن کی شخصیت کے تمام خدوخال میرے ذہن میں نقش کر دیئے ہیں۔اِس قدر خوبصورت انسان اور اس طرح جینے اور جینے کی دُعا دینے والے شخص دنیا میں بہت کم ملتے ہیں۔اسی تقریب میں شرکت کے لئے لاہور سے ڈاکٹر مجیب جمال، رانا محبوب اختر، بہاولپور سے ڈاکٹر روبینہ رفیق اور جام پور سے جاوید پتافی خصوصی طور پر آئے،جبکہ ملتان سے اہل ادب کی بھرپور نمائندگی موجود تھی۔ نظامت کے فرائض اظہر سلیم مجوکہ نے ادا کئے۔رانا محبوب اختر جو ادب، تاریخ، شہریت اور زبانوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔اس تقریب کے لئے اٹھارہ صفحات پر مشتمل ایک شاندار مقالہ لکھ کر آئے تھے تاہم تقریب میں وقت کی کمی کے باعث انہوں نے اُس کے چیدہ چیدہ نکات بیان کئے۔انہوں نے ڈاکٹر اے بی اشرف کو عظیم لکھاری نلوئیس بورفیس کی زبان میں ایک ایسی شخصیت قرار دیا جو خود کتاب کا درجہ حاصل کر لیتی ہے،جسے پڑھ کر لوگ علم و عرفان کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ڈاکٹر انوار احمد جن کی زندگی کا بڑا عرصہ ڈاکٹر اے بی اشرف کے ساتھ گزرا اپنے خطاب میں یادوں کا دبستان کھولتے رہے،انہوں نے کہا ڈاکٹر اے بی اشرف پاکستان میں اپنے شاگردوں کے لئے محبت کا استعارہ تھے، اُس سے کہیں زیادہ انہیں ترکی میں محبتیں ملیں۔یہ انہی محبتوں کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنے شہر، وطن اور خاندان سے دور رہ کر ساڑھے تین دہائیاں گزارد یں۔ ڈاکٹر نجیب جمال کو ڈاکٹر اے بی اشرف کے ساتھ پچاس سال کی رفاقت کا دعویٰ ہے، اُن کے پاس ایسی یادیں اور باتیں ہیں کہ جن سے ڈاکٹر اے بی اشرف کی زندگی اور اُن کی شخصیت کے اسرار کھلتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ایسے کئی واقعات سنائے جو ڈاکٹر اے بی اشرف کی شاگردوں سے محبت، سادگی اور معصومیت کو اُجاگر کرتے تھے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ ڈاکٹر اے بی اشرف ایک زندہ انسان تھے وہ اپنی مرضی سے جئے اور انہوں نے نامساعد حالات اور مشکلات کا کبھی شکوہ نہیں کیا،اُن کی آنکھوں میں زندگی کی رمق اور آواز کا طنطنہ آخر دم تک برقرار رہا۔اُن کے جانے سے واقعی ایک بڑا انسان دنیا میں نہیں رہا۔تاہم اُن کی محبت اور یادیں ہم سب کے دِلوں میں ہمیشہ موجود رہیں گی اور وہ زندہ رہیں گے۔

شعبہ اردو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی سابق چیئرپرسن ڈاکٹر روبینہ رفیق نے جو تعزیتی ریفرنس میں شرکت کے لئے خصوصی طور پر آئیں۔ ڈاکٹر اے بی اشرف کو مینارہئ نور قرار دیا۔شعبہ اردو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کی چیئرپرسن ڈاکٹر فرزانہ کوکب، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر خاور نوازش،ایمرسن یونیورسٹی شعبہ اردو کے چیئرمین ڈاکٹر سجاد نعیم، قاسم اسلم انصاری، رضی الدین رضی و دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر اے بی اشرف کو ادب کی ایک ایسی نابغہئ روز گار شخصیت قرار دیا جو اپنا دائمی اثر چھوڑ جاتی ہے۔شوکت اشفاق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر اے بی اشرف ایسی شخصیت تھے جو اپنے عہد کا حوالہ بن جاتے ہیں۔ملتان کی ادبی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی ڈاکٹر اے بی اشرف کا نام اُس میں سنہری حروف سے موجود ہو گا۔ ڈاکٹر اسد ادیب نے اپنے صدارتی خطاب میں علم و فضل کے دریا بہائے۔انہوں نے کہا اچھا استاد اپنی خوش لباسی، عمدہ عادات،اپنے مضمون پر دسترس اور اپنے علم کو شاگردوں تک پہنچانے میں کاملیت رکھتا ہے۔ یہ تمام اوصاف ڈاکٹر اے بی اشرف میں موجود تھے، وہ ایک زندہ شخصیت تھے اور زندہ شخصیات دنیا سے جانے کے بعد بھی زندہ رہتی ہیں،وہ اپنے شاگردوں،چاہنے والوں اور دوستوں کے دِلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔یہ ایک بھرپور تقریب تھی جس میں اہل ِ شہر نے اپنے نامور سپوت کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -