غایتِ علم و تعلیم
دو باتیں ہیں یعنی پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے نہیں مرنا کچھ جاننا، کچھ سیکھنا، کچھ پڑھنا ہے اور کچھ کر گزرنا ہے، دوسری بات بہت ہی آسان اور سادہ ہے کہ کچھ بھی نہیں کرنا صرف خوش رہ کر مر جانا ہے، بھلے علم و تعلیم کے اَن گنت فوائد ہوں مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ذہانت حیاتِ انسانی کو تہس نہس کرکے رکھ دیتی ہے، محبت و عشق کی آفرینش کا مقصد ہی یہی تھا کہ اس کے وسیلے سے انسان ایک پْرسکون اور پْرجوش زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے مگر ذہین لوگوں نے محبت و عشق کو بھی نطقِ طلب کی بھینٹ چڑھا دیا چنانچہ اب سننے میں آتے ہیں صرف فلسفہ ہائے عشق و محبت جبکہ فی الواقع ایک عملی محبت چراغ لیکر بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی، صرف دو نسلیں پیچھے ہمارے پورے خاندان میں کوئی بھی شخص قرآن سے واقف نہیں تھا مطلب ہمارے گھروں میں قرآن صرف رحمت و برکت کے واسطے ایک نہایت ارفع مقام پر پڑا رہتا چنانچہ جب کوئی دکھی یا پریشان ہوتا تو غلافِ قرآن کو چومتے ہی وہ دنیا جہان کے دکھ درد بھول کر ایک دم پْرسکون ہو جاتا، ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ہمارے گھروں میں پیتل کے کٹورے پڑے ہوتے جن کے کناروں پر سورہ یٰسین کندہ ہوتی اور جب کوئی بھی پریشان حال ہوتا تو فوراً اْس کٹورے میں پانی ڈال کر اْسے پلا دیتے چنانچہ وہ بغیر کوئی اینل جیسک یا اینٹی نوزیا کھائے ایک دم اْٹھ بیٹھتا، اسے بڑی عورتیں باتم کا کٹورا کہا کرتیں اب تو اس کی شکل بھی بہت دِقت سے یاد کرکے ذہن میں آتی ہے کیا ہی عمدہ علاج ہوا کرتے، پورے گھر میں صرف ایک ہی دوائی پڑی ہوتی اور اْسے دادی ماں اَمرت دھارا کہا کرتیں جیسے طبعیت بگڑتی فوری طور پر اَمرت دھارا کی بوتل میں سے تھوڑی سی کھنڈ نکال کر مریض کو کھلا دیتے مریض منٹوں میں اْٹھ کر بیٹھ جاتا، اب تو چار اینٹی بیاٹک کے انجکشن نہ لگیں تو مریض سمجھتا ہی نہیں کہ کوئی علاج بھی ہوا ہے، ہمسایہ ہمجولیوں کی دادی کا جب بھی پیٹ میں درد ہوتا تو ہمارے گارے سے بنے ہوئے چولہے سے اْپلوں کی راکھ اْٹھا کر پِسے ہوئے ثابت نمک کی چٹکی کے ساتھ پھکی بنا کر پانی کے ساتھ نگل لیتیں اور پھر چند لمحوں میں اْن کا مارے درد کے پیٹ سے ہاتھ اْٹھ جاتا، علم فی نفسہ وسیلہِ لامتناہی اذیت ہے اگر یہ والہانہ سپردگی سے فرار اختیار کر لے، شاید حضرت اقبال نے اسی جانب اشارہ کیا تھا
ایں کارِ حکیمی نیست دامانِ کلیمی گیر
ہومو سیپین یعنی انسان سمجھتا ہے کہ وہ آج زندگی کے قریباً ہر شعبہ میں بے انتہاء ترقی کر چکا ہے اور انسان کا دعویٰ مبنی بر حقیقت بھی ہے مگر کیا انسان نے یہ بھی سوچنے کی زحمت کی کبھی کہ اِس نگوڑی ترقی نے انسان کے قلب و جگر کا اطمینان بھی افزوں کیا ہے یا نِری گوناگوں سہولیات کا نام ترقی رکھ دیا گیا ہے؟ بلاشبہ پہلے لوگ تین سے سات سال کے عرصہ میں تپ دِق سے مر جاتے اور آج تپ دِق سے کوئی نہیں مرتا، مگر وہ تین یا سات سال تپ دِق کے مریض ہوتے ہوئے بھی اس قدر جوش و ولولہ سے جیتے کہ مرتے وقت موت بھی اْن کے اس استقلال پر رشک کرتے ہوئے اپنا کام کرتی جبکہ آج کینسر سے بچنے والے بھی جس پژ مردگی و مایوسی کے عالم میں جی رہے ہیں کوئی حساب نہیں، جس نفس کو دیکھو ایک انجانے دکھ سے نبرد آزما ہے دکھ کی ایک وجہ پوچھو تو ہزار وجوہات بتا دے مگر خوشی و ولولہ کی کوئی ایک وجہ بھی نہیں کیونکہ خوشی کیلئے وجہ نہیں چاہئے ہوتی، خوشی جب بھی آتی ہے بغیر کسی وجہ کے ہی آتی ہے اس کے برعکس ہر دکھ کی ہمارے پاس کوئی نہ کوئی معقول وجہ ضرور ہوتی ہے،پس خوشی معقول نہیں دکھ معقول ہے تبھی تو دنیا دکھی ہے اب کون بھلا مانس آج چاہے گا کہ لوگ اْسے احمق کہیں سو دکھی رہ کر اپنی غیر معمولی ذہانت کا خوب پرچار کیا جا رہا ہے، دنیا میں جس قدر دکھ ذہین لوگوں نے پیدا کئے ان کا عشر عشیر بھی کسی عام ذہنی سطح کے انسان نے نہیں پیدا کیا اور پھر یہی پڑھی لکھی مخلوق آخر میں لامتناہی اذیت و کربناک لامقصدیت کا شکار ہو کر اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ہی ختم کر دیتی ہے، دنیا کا کوئی احمق خودکشی نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے پاس اتنا علم ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے دکھوں کے سبب تلاش کر لے وہ جیتا ہے اور صرف جیتا ہے پھر چاہے وہ جینا کس قدر کٹھن کیوں نہ ہو، نوٹنگھم کے ایک انگریز سولیسٹر دوست کے کہنے پر میں نے انگریزی میں یوتھینیزیا یعنی طبی طور خودکشی کے اختیار پر ایک مضمون لکھا تھا جس کو یورپین دوستوں نے خوب سراہا بلکہ ایک کینیڈین وکیل دوست نے تو اسے انسان کو اپنی مرضی سے مرنے کے حق میں بطور قانونی دلیل عدالت میں جج کے سامنے پیش کر دیا کہ دیکھیں صاحب مضمون میں اپنی مرضی سے مرنے کی کیسی عمدہ اور معقول وجوہات بیان کی گئی ہیں، واقعی جب زندگی بے مقصد و بے ربط ہو جائے اور ہمہ وقت ایک بے دلی و مایوسی و بے کلی طاری ہو جائے تو موت کے حق میں انسانی عقل خوب متحرک ہو جاتی ہے اور ایسے ایسے دلائل لے آتی ہے کہ الامان والحفیظ، میڈیکل، انجنیئرنگ، ایم بی اے، ایم سی ایس اور سوشل سائنسز میں ماسٹر یا پی ایچ ڈی کر لینے سے ہم خوشی سے متعارف نہیں ہوتے البتہ نت نئے دکھوں سے ضرور آشنا ہو جاتے ہیں اور پھر اْن شناخت شدہ دکھوں میں سے اپنی پسند کے چند ایک دکھ اپنے پاس مستقل طور پر رکھ لیتے ہیں، ہم نے تو کبھی سنا اور نہ ہی پڑھا کہ کسی اْستاد، مدرّس یا پروفیسر نے کبھی اپنے طلبہ کو علم و تعلیم کی غایت خود خوش رہنا اور دوسروں کو خوش کرنا بتلایا ہو، کسی کیلئے تعلیم کا مقصد ایک عمدہ ملازمت ہے تو کسی کیلئے گرہستی کا مستند سرٹیفکیٹ، کوئی سب کو پیچھے چھوڑ بہت آگے جانا چاہتا ہے تو کوئی محبت و عشق سے گْندھے ہوئے رشتوں سے منہ موڑ اعلیٰ تعلیم کیلئے دیارِ غیر کا رخ کر لیتا ہے اور پھر آخر میں سارے تعلیم یافتہ اپنے حصے میں بڑے لاجواب اور انتہائی معقول دکھ پیدا کرکے باقی پوری زندگی ایک لامتناہی اضمحلال میں گزار لیتے ہیں، محبت، وفا اور ایثار ہو تو مفلسی کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن اگر تونگری ہو اور وفاداری اور ایثار نہ ہو تو پھر بلھے شاہ سائیں کے بقول
کتے تیں تھی اْتے
مرضِ حقیقی مفلسی و لاچاری نہیں ہے بلکہ محبت و ایثار کا شدید بحران ہے جس نے انسان کو دکھوں سے ہمکنار کر دیا، طبیعت اْداس ہو جائے تو عمدہ کھانا بھی کسی کام کا نہیں معلوم پڑتا جبکہ طبعیت سرشار ہو تو شوگر کے مریض کو گڑ کھلا دو رگوں میں بہتا خون کبھی نافرمانی نہیں کرے گا، امیر خسرو فرماتے ہیں
اَز سرِ بالین ما برخیز اے ناداں طبیب
درد مند عشق را دارو بجز دیدار نیست
یہ ایک لامتناہی موضوع ہے اس پر پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن چونکہ یہ ایک اخباری کالم ہے اس لئے حضرت رومی کی ایک رباعی کے ساتھ مضمون کا خاتمہ کرتا ہوں آپ فرماتے ہیں کہ
شاد باد اے عشق خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علت ہائے ما
اے تْو افلاطون و جالینوس ما
اے دوائے نخوت و ناموس ما