مقصدِ شہادت نگاہوں سے اوجھل نہ ہو
واقعہ کر بلا فقط مظلومیت کی داستان نہیں، مگر بعض حلقوں میں ایسا ہی سمجھا جاتا رہا ہے فی الواقع یہ معرکہ عزم و ہمت ہے دنیا کی تاریخ کا بالکل منفرد واقعہ۔ صد حیف کہ بیشتر مسلمان اسے حادثہ ہی سمجھتے چلے آتے ہیں جنہوں نے لازوال قربانی و ایثار اور بے مثال حق گوئی و حق جوئی کو محض فضائل و مصائب کا عنوان بنا دیا ہے یہ بھی سو فیصد درست ٹھہراکہ گردش ایام نے اسے رونے دھونے کا لباس بے سبب نہیں بنایا۔نواسہ ئ رسول ؐ کی شہادت کے بعد بد قسمتی سے مسلمانوں پر عموماً غیر اسلامی غیر انسانی حکومتوں کا رواج رہاخلافت راشدہ سے یکسر متضاد مزاج رکھنے والے آمریت پسند اور ملوکیت پرست طبقات و قبائل اس امرو عمل کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے کہ لوگ اس روایت سے کس طرح بھی جڑے رہیں،لہٰذا حقیقت کو چھپانے کی غرض سے بتدریج دو گروہ پیدا کئے گئے ایک جنہوں نے فضائل کے ذکر و فکر پر مرکوز کیا دوسرا جو مصائب دہراتے رہ گئے یوں آہستہ آہستہ مقصدیت و افادیت نظر سے اوجھل ہو گئی کیا امام عالی مقام ؓ کا قیام صرف اتنی حقیقت و اہمیت رکھتا ہے؟میرا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اگر تاجدار کربلا کے مقصد و فلسفہ کو سمجھ لیا جاتا۔امت مسلمہ یوں زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی کیا ظلم ہے کہ اس دور میں بھی عالم اسلام کے ہر ملک و ریاست میں ملوکیت کا رواج ہے کہیں بھی خلافت شورائیت یا جمہوریت کا دور دورہ نہیں!مانا کہ یہ ایک اجتماعی جرم ہے اور سزا بھی من حیث القوم بھگت رہے ہیں یوں تو اس موضوع پر کب نہیں لکھا اور بولا گیا؟اور کب کس نے نہیں لکھا اور بولا؟لیکن کیا لکھتے اور بولتے چلے آتے ہیں؟ وہی جو امیر و ملوک اور شہنشاہ چاہتے تھے اور جدید سامراج چاہتا ہے۔امت میں موجود فقط نسلی مسلمان اور ظلم و ستم کی گود میں پروردہ آج بھی یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھولے سے بھی امام پاک ؓ کے منشور و دستور سے آگاہ نہ ہوجیسے بھی ہو کلمہ گو نظر و نیاز،فضائل و مصائب باہم کشمکش، فرقہ واریت اور لفظی محبت و عقیدت میں الجھے رہیں کوئی بھی ان کے حقیقی فکر و نظر کی بات نہ کرے لگتا ہے کہ ہر عہد کے ”ظالم“ بظاہر اپنے مقاصد میں کامیاب رہے آخر کب تک اور کیوں؟کوئی تو ہو جو کلمہ گو مسلمانوں کو بتائے اور سمجھائے کہ یہ رہ منزل کو نہیں جاتی کیا ہم بھٹکے ہوئے آہو ہیں؟اور کوئی سوئے حرم لے جانے والا نہیں؟ہمیں یہ بہرحال سمجھنا ہو گا کہ امام پاک ؓ کے قیام و شہادت کا کوئی تومقصد تھا عظیم مقصد؟کیا حقیقی وارثان صرف ماتم وغم اور فضیلت و شان کے بیان میں رطب اللسان رہیں گے؟