کنن پوشپورہ سانحہ: انصاف کی صدا آج بھی گونج رہی ہے

کنن پوشپورہ سانحہ: انصاف کی صدا آج بھی گونج رہی ہے
کنن پوشپورہ سانحہ: انصاف کی صدا آج بھی گونج رہی ہے
سورس: Wikipedia Commons

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کپواڑہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) 23 فروری 1991 کی رات، مقبوضہ کشمیر کی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ایک شمار کی جاتی ہے، جب بھارتی فوج کی 4 راجپوتانہ رائفلز نے ضلع کپواڑہ کے جڑواں دیہات کنن اور پوشپورہ میں سرچ آپریشن کے نام پر درجنوں خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس سانحے کو کشمیر میں ہونے والے بدترین مظالم میں سے ایک قرار دیا ہے، لیکن 3 دہائیاں گزرنے کے باوجود متاثرین کو انصاف نہیں ملا۔

اس رات فوجیوں نے دیہات کو گھیرے میں لے کر مردوں کو گھروں سے باہر نکالا اور برف میں ننگے پاؤں کھڑا رکھا، جبکہ گھروں میں موجود خواتین، بشمول حاملہ خواتین اور معمر عورتوں کو بدترین درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ متاثرین کے مطابق فوجی نشے کی حالت میں تھے اور ان کا مقصد واضح تھا۔ اگلی صبح دیہاتی بکھری ہوئی عزتوں اور ٹوٹے خوابوں کے ساتھ انصاف کے متلاشی تھے۔

متاثرین نے فوری طور پر مقامی تحصیلدار کو خط لکھا، لیکن ایف آئی آر درج ہونے میں تاخیر کی گئی اور واقعہ کو سرکاری طور پر "بے بنیاد" قرار دے دیا گیا۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کپواڑہ ایس ایم یاسین نے خود سانحے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، "جو مظالم دیکھے، انہیں تحریر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔" اس کے باوجود، بھارتی حکومت نے تحقیقات کو دبانے کے لیے پی سی آئی (پریس کونسل آف انڈیا) کی مدد لی، جس نے متنازع رپورٹ جاری کر کے فوج کو کلین چٹ دے دی۔

بین الاقوامی تنظیموں نے بھارتی حکومت کے اس اقدام کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ہیومن رائٹس واچ اور ایشیاء واچ نے پی سی آئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے بھارتی حکومت کی سازش قرار دیا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے 1992 کی انسانی حقوق رپورٹ میں اس واقعے کو ثابت شدہ جنگی جرم قرار دیا۔

جموں و کشمیر سٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن نے 2011 میں فوج کو "درندوں کا روپ دھارنے" کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے قانونی کارروائی اور متاثرین کو مالی امداد دینے کی سفارش کی۔

سانحہ کنن پوشپورہ کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ متاثرہ خواتین اور ان کے اہل خانہ کو سماجی بائیکاٹ کا سامنا ہے، نوجوان لڑکیوں کی شادیاں مشکل ہو چکی ہیں، اور کئی متاثرہ خاندان اپنے دیہات چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق  پاکستان کو اس معاملے کو اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر مزید مؤثر انداز میں اٹھانا چاہیے۔آزاد کشمیر میں متاثرین کے بیانات ریکارڈ کر کے عالمی سطح پر پیش کیے جائیں۔قانونی معاونت اور نفسیاتی بحالی مراکز قائم کیے جائیں تاکہ متاثرین کو انصاف کے لیے مدد فراہم کی جا سکے۔میڈیا کوریج اور تحقیقاتی رپورٹس کے ذریعے اس واقعے کو عالمی سطح پر مزید اجاگر کیا جائے۔

سانحہ کنن پوشپورہ صرف کشمیریوں کا نہیں، بلکہ ایک بین الاقوامی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینی چاہیے۔ انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار کے مترادف ہے، لیکن ظلم کے خلاف جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔