جنگ کیوں ضروری ہے؟    (3)

  جنگ کیوں ضروری ہے؟    (3)
  جنگ کیوں ضروری ہے؟    (3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 چوتھا مرحلہ

7 دسمبر 1941ء کو جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کر دیا۔ یہ ایام دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی کامیابیوں کے عروج کے ایام بھی تھے۔ محوری قوتوں کا آفتاب اب گویا نصف النہار تک پہنچ گیا……

جاپان نے اول اول دسمبر 1941ء سے وسط 1942ء تک کے سات ماہ میں سارے مشرق بعید کو روند ڈالا اور بحرالکاہل کے سینکڑوں جزیروں پر بھی قبضہ کر لیا۔ جاپانی بحری اور بری افواج، ایک طرف انڈیا اور دوسری طرف آسٹریلیا تک جا پہنچیں۔ بحرالکاہل کی اس جنگ میں جاپان کی ابتدائی برتری کی کئی وجوہات تھیں۔مثلاً:

1904-05ء کی جاپان۔روس جنگ میں جاپان نے تمام کوریا اور مانچوریاکے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ 1930ء میں جاپان نے چین پر بھی تسلط جمانے کا آغاز کیا اور آہستہ آہستہ چین کے مشرقی حصوں پر قبضہ کرتا چلا گیا۔ 1939ء کے آغاز پر روس اور جاپان نے آپس میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر لیا، لیکن ساتھ ہی جاپان نے جرمنی کے ساتھ بھی اتحاد کر لیا۔ چنانچہ جب جون 1940ء میں جرمنی نے فرانس کو شکست دی تو جاپان نے انڈو چائینا میں جو فرانسیسی مقبوضات تھے، ان پر بھی قبضہ جما لیا۔ 

دوسری طرف انڈونیشیا میں ولندیزی (Dutch) مقبوضات کو چونکہ برطانیہ کی سپورٹ حاصل تھی، اس لئے وہ جاپان کی دسترس سے باہر رہے۔ لیکن جاپان کا تیل بیشتر انڈونیشیا سے آتا تھا، جن پر ولندیزیوں کا قبضہ تھا۔ جب تک جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ نہیں کیا تھا، تب تک فرانس، برطانیہ اور امریکہ کھلم کھلا جاپان کی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، تاہم انہوں نے جاپان پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا کہ چین کو آزادی دی جائے اور اس کے مقبوضہ علاقے خالی کر دیئے جائیں۔ انکار کی صورت میں برطانیہ اور امریکہ نے جاپان کا تیل بند کرنے کی دھمکی بھی دے دی…… انہی وجوہات کی بنا پر جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کیا اور برطانوی اور ولندیزی کالونیوں کو روندتا ہوا آسٹریلیا اور انڈیا تک آن پہنچا تھا۔

جس طرح جرمن فورسز آپریشن باربروسہ میں پہلے پانچ چھ ماہ تک منزلیں مارتی ماسکو اور لینن گراڈ تک چلی گئی تھیں (جون 1941ء تا نومبر 1941ء) اسی طرح جاپانی فورسز بھی پرل ہاربر کے بعد پانچ چھ ماہ میں آسٹریلیا تک چلی گئیں۔(دسمبر1941ء تا مئی 1942ء)

لیکن اس کے بعد جزیرہ مڈوے (Midway) کی لڑائی میں جاپان کو امریکہ کے ہاتھوں زبردست شکست کا سامنا ہوا۔ چار جاپانی طیارہ بردار اس لڑائی میں غرقاب ہو گئے اور جاپان کی بحری برتری کا طلسم بکھرنے لگا۔ 1940ء  میں امریکہ نے بحری جہاز سازی کا ایک عظیم منصوبہ شروع کیا، جس کے نتائج 1942ء کے آتے آتے ظاہر ہونا شروع ہو گئےّ اگست 1942ء میں امریکہ کا پہلاطیارہ بردار جہاز اور اس کے ساتھ کئی تباہ کن جہاز سمندر میں اتار دیئے گئے۔ 1945ء کا آغاز ہوا تو امریکہ کے ایک سو سے زائد طیارہ بردار اور سینکڑوں کروزر، تباہ کن، فری گیٹ اور آبدوزیں سمندر میں موجود تھیں۔ ان کے علاوہ سینکڑوں بیٹل شپ، تجارتی جہاز اور برآبی (ایم فی بی ایس) جہاز بھی امریکہ کے سویلین بحری بیڑے میں شامل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ مڈوے کی لڑائی کے بعد جاپان کی فتح کے سارے خواب چکنا چور ہونا شروع ہو گئے تھے۔ جاپان کی صنعتی اساس اتنی مضبوط اور ثروت مند نہ تھی کہ وہ روزانہ آپریشنوں میں ضائع ہونے والے درجنوں بلکہ سینکڑوں بحری اور ہوائی جہازوں اور دیگر حربی ساز و سامان کی کمی کو پورا کر سکتی اور ان کا متبادل تیار کرکے محاذوں پر بھیج سکتی…… پہاڑوں پر اگر برف گرنی بندہو جائے تو دریا اور ندی نالے سوکھ جاتے ہیں!

پانچواں مرحلہ

جب 1941ء کے اواخر میں  افواج ماسکو اور لینن گراڈ تک آ کر رک گئیں تو آتی بہار انہوں نے ایک دفعہ پھر کوشش کی کہ ان دونوں شہروں پر قبضہ کر لیا جائے۔ لیکن ان کو پھر ناکامی ہوئی۔ اس ناکامی کے بعد جرمنوں نے جنوب کا رخ کیا۔ جنوب کی طرف تین بڑے اہداف تھے یعنی سٹالن گراڈ، دریائے وولگا اور کاکیشیا۔ ان تینوں راستوں سے روس کو برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے عسکری اور اقتصادی امداد پہنچ رہی تھی۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے طرفین میں گھمسان کے معرکے لڑے گئے۔اواخر 1942ء میں جرمن افواج سٹالن گراڈ کے گلی کوچوں میں جنگ کررہی تھیں اور ساتھ ہی کاکیشیا کی جانب بھی پیش قدمی جاری تھی۔ جہاں بحیرۂ کیسپئین میں روس کے تیل کے کنویں تھے۔ ہٹلر کی نگاہیں ایک عرصے سے ان کنوؤں پر مرکوز تھیں۔ لیکن جب سٹالن گراڈ میں جرمن افواج کو روسی افواج نے اپنے گھیرے میں لے لیا تو جرمنوں نے کاکیشیا سے بھی پس قدمی میں عافیت جانی کہ کہیں ایسا نہ ہو، وہ بھی سٹالن گراڈ کی طرح روسیوں کے حصار میں پھنس جائیں۔ سٹالن گراڈ میں جرمنی کی چھٹی فوج محصور ہو کر رہ گئی تھی۔ ہٹلر نے بہت کوشش کی کہ اس فوج کو وہاں سے نکالا جائے لیکن اس کی ایک نہ چلی اور پوری کی پوری آرمی کو روسیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔

جوجرمن افواج کاکیشیا اور وولگا سے پیچھے ہٹ گئی تھیں انہوں نے 1943ء کے موسم گرما میں مشرق کی طرف یلغار کرنے کی ایک اور کوشش کی۔ جولائی 1943ء میں کرسک کے مقام پر روسی اور جرمن افواج کے درمیان جو ٹینکوں کی لڑائی لڑی گئی، اسے تب تک لڑی جانے والی ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی کا نام دیا جاتا ہے۔ دراصل کرسک کی ٹینکوں کی یہ لڑائی جرمن افواج کی طرف سے کی جانے والی ایک آخری یلغار ی کوشش تھی جس کے بعد 20ماہ تک جرمن افواج مسلسل اپنے دارالحکومت برلن کی طرف پس قدمی کرتی رہیں۔ لیکن اس محاذ پر، جرمنی کی شکست کا یہ منظر، آخری منظر نہ تھا…… شمالی افریقہ میں بھی جرمنوں کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا تھا۔

 1941ء میں جرمنی کو اپنے اتحادی اٹلی کی مدد کے لئے شمالی افریقہ آنا پڑا تھا…… مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ جرمن عسکری مشین پر شمالی افریقہ کی مہم کا بوجھ ایک ناروا بوجھ تھا۔ مشرق کی طرف سے آلمین کی مشہور لڑائی کے بعد برطانوی افواج، جرمنوں کا پیچھا کررہی تھیں اور مغرب کی جانب سے امریکی افواج بحراوقیانوس کو عبور کرکے الجیریا میں چلی آ رہی تھیں یعنی جرمن فورسز کو ایک طرف سے برطانوی اور دوسری طرف سے امریکی افواج کا سامنا تھا۔ چنانچہ ایک اضطراب کے عالم میں جرمن فورسز، جزیرہ سسلی کی طرف پس قدمی کر گئیں لیکن جب اتحادی افواج نے سسلی میں بھی لینڈ کرکے ان کو للکارا تو انہیں سرزمین اٹلی (Main Land) کی طرف کوچ کرنا پڑا…… یہ واقعہ جولائی 1943ء میں پیش آیا۔

پھر اتحادی افواج نے مین لینڈاٹلی پر بھی دھاوا بول دیا اور وسط 1943ء میں اطالوی افواج نے ہتھیار ڈال دیئے۔ جب اٹلی ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا تو جرمنی نے فرانس اور روس سے افواج بھیج کر اتحادیوں کو روکنا چاہا۔ جرمن کمکی ٹروپس روس سے نکلے تو بلقانی ریاستوں کی طرف بڑھے جہاں اطالوی افواج مقامی دہقانوں کے منظم اور مسلح لشکروں کے خلاف برسرپیکار تھیں۔ ان لشکروں نے اطالوی ہتھیار اطالویوں سے چھین کر اپنے آپ کو ان سے مسلح کیا اور یوگو سلاویہ اس جنگ کا پہلا ملک بن گیا جس نے مارشل ٹیٹو (Tito) کی قیادت میں گوریلا طرز جنگ اختیار کرتے ہوئے اطالوی اور جرمن فورسز کو شکست دی اور آزادی حاصل کی۔

1943ء کا سال جاپانیوں پر بھی بھاری تھا۔ اگست 1942ء میں بحرالکاہل کے ایک جزیرے گوڈل کینال میں امریکہ نے جاپانیوں کو جو شکست دی تھی وہ پورے بحرالکاہل تھیٹر آف وار میں جاپانی پسپائیوں کا نقطہ ء آغاز ثابت ہوئی۔ امریکی گراؤنڈ، ایئر اور نیول فورسز ایک ایک کرکے جاپانیوں کو ان جزیروں سے نکالتی چلی گئیں جن پر اس نے دسمبر 1941ء اور جون 1942ء کے درمیانی سات ماہ میں قبضہ کرلیا تھا۔ وسط 1942ء سے لے کر اوائل 1945ء تک جاپان کی اقتصادی، صنعتی اور عسکری اساس بتدریج کمزور ہوتی چلی گئی اور امریکی فورسز جاپانی مقبوضات کو زیر تصرف لاتی چلی گئیں۔ 1944ء کے اواخر میں تو یہ حال ہو گیا کہ امریکہ کے بھاری بمبار طیارے جزائر ماری آناسے ٹیک آف کرکے جاپان پر حملے کرنے لگے۔

(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -