سیاست خدمت یا مفادات کا ٹوکرا ؟

سیاست خدمت یا مفادات کا ٹوکرا ؟
سیاست خدمت یا مفادات کا ٹوکرا ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس وقت وطن عزیز پاکستان قرض کی زنجیر میں ایسا جکڑا ہوا ہے کہ اس سے نجات ممکن نظر نہیں آرہی.جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں تو مزید 8 ارب ڈالر کا قرض لینے کے لیے حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات  طے پا چکے ہونے کی اطلاعات ہیں.
وفاقی وزیر احسن اقبال  کے بقول وفاقی حکومت کی کل آمدن 7 ہزار ارب روپےسالانہ ہے جبکہ قرض کی ادائیگی کے لیے سالانہ 8 ہزار ارب روپے درکار ہوتے ہیں. یعنی کہ ملک کی کل آمدن صرف قرض کی اقساط ادا کرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہے بلکہ اس سے 1 ہزار ارب روپے کم ہے. ملک چلانے کے لیے دفاع، تعلیم، ترقیاتی منصوبے،صحت، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں، مراعات، پینشن، ریٹائرمنٹ اور ہر طرح کے باقی اخراجات کے لیے جو ضرورت پڑتی ہے اس کے لیے ہمیں مزید قرض چاہیے ہوتا ہے.
اس قرض کے سوا ملکی معیشت اب ایک دن بھی نہیں چل سکتی لیکن اس کے باوجود ایک سیاسی جماعت کے لوگ امریکہ میں ورلڈ بینک کے باہر ریاست پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف احتجاج کرنے میں مصروف نظر آئے جنہیں بخوبی اندازہ تھا کہ ملک کی معیشت اس قرضے کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتی لیکن پھر بھی انہیں اپنے سیاسی مفادات ریاستی مفادات سے بھی زیادہ عزیز ہیں کہ جو سیاسی اختلافات پر ریاست کو ہی تباہ کرنے کے درپے ہیں.

دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی سرکاری گاڑی کے صرف ٹائر بدلنے کے لیے پونے تین کروڑ روپے لگیں گے اور عظمی بخاری  کے بقول یہ ٹائر ہر 10  ہزار کلومیٹر کے بعد بدلنے پڑتے ہیں، مطلب اربوں کی ان گاڑیوں پر ہر چند ماہ بعد کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور یہ صرف ایک عہدیدار کے زیراستعمال ایک گاڑی کی کہانی ہے ، باقی اندازہ آپ خود کرلیں کہ باقی سفری و دفتری اخراجات کا عالم کیا ہوگا؟
باقی ملک بھر کے تمام صوبوں اور وفاق کے وزراء، اعلی بیوروکریسی  اور دیگر افسر شاہی کے ناز نخرے اٹھانے پر ہزاروں ارب روپے جو درکار ہوتے ہیں اس کی کہانی پھر سہی.ملک بھر میں ضمنی انتخابات کی تیاریاں بھی شروع ہوچکی ہیں. اسمبلیوں میں پہنچنا یقینی بنانے کے لیے  ہمارے لاڈلوں نے پہلے ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن جیتے تھے جو  اب اپنی دیگر نشستوں کو خالی کرچکے ہیں. وہاں پر دوبارہ الیکشن ہونگے اور پھر سے  قرض کی لی ہوئی رقم سے اربوں روپےلگ جائیں گے.
کوئی بھی شخص ایک سے زائد نشست  نہیں رکھ سکتا لیکن پھر بھی متعدد نشستوں سے الیکشن  لڑنے کی اجازت ہے ، جیت کے بعد  ایک کے سوا سب چھوڑ کر ضمنی الیکشن کا بوجھ ڈالا جاتا ہے.اس خواہ مخواہ کی سرگرمی پر قرض کی رقم سے اربوں روپے لگائے جاتے ہیں. کیا یہ عقل مندی ہے؟ کیا یہ قرض کی دلدل میں پھنسی معیشت کے ساتھ کھلواڑ نہیں؟ کیا یہ لوگ ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں؟ کیا یہ غریب عوام کا لہو نچوڑنے کے مترادف نہیں؟

 اس سے ملک پر سالانہ ہزاروں ارب روپے کا  قرض چڑھ رہا ہے کیا یہ لوگ  اپنی جائیدادیں بیچ کر ادا کریں گے؟لیکن نہیں!!!!! غریب آدمی کا المیہ اور نوحہ کوئی سننے کو تیار نہیں..وفاقی کابینہ میں  احسن اقبال کفایت شعاری کے اکثر لمبے لمبے مشورے اور درس دیتے نظر آتے ہیں. اپنے گذشتہ دور حکومت میں تو وہ عوام کو چائے کی دو پیالیوں کی جگہ ایک پیالی پینے کا بھی درس دیتے تھے، کیونکہ ہم سالانہ تقریباً پونے دو ارب ڈالر کی چائے منگوا کر پی جاتے ہیں جس کہ وجہ سے پاکستان سے پونے دو ارب ڈالر کی رقم باہر منتقل ہوجاتی ہے. ان کی اس دردمندی پر صدقے واری جانے کو دل چاہتا ہے کہ شکر ہے کوئی تو ہے جسے قرض میں جکڑی پاکستانی غریب عوام کی کوئی فکر ہے. لیکن ٹھہریے!
یہی احسن اقبال  الیکشن 2024 میں نارووال سے ایک حلقے سے خود جبکہ دوسرے حلقے سے اپنے بیٹے کو الیکشن میں اتارنے جارہے تھے. کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے آخری روز تک اسی پر محنت ہوتی رہی اور تیاریاں چلتی رہیں. کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے عین آخری روز اچانک شہنشاہ معظم کی طبع نازاں پر ناجانے کیا گراں گزرا کہ موصوف نے دونوں حلقوں میں اپنے کاغذات جمع کروادیے.  دونوں حلقوں سے جیت کا نوٹیفکیشن موصوف کے نام نکلا. ایک حلقہ رکھ کر دوسرے حلقے میں اب دوبارہ اپنے بیٹے کو ضمنی الیکشن لڑوانے جارہے ہیں. اس کے لیے کیوں لڑائی ہوئی؟ ضلع بھر میں مسلم لیگ ن کے کیوں ٹکرے ہوئے، کیسے ایک حلقے میں ایک شخص کو لوٹا ہونے کی وجہ سے پارٹی میں شامل نہ کرنے کی ضد بن گئی، اپنی ہی پارٹی کے دوسرے گروپ کے خلاف پولیس اور دیگر سرکاری مشینری کا کیسے استعمال ہوا ؟یہ کہانی بچے بچے کی زبان پر ہے لیکن عجب اتفاق دیکھیے کہ ایک اویس قاسم کو لوٹا قرار دے کر پارٹی میں واپس نہ لینے والے بیانیے کو انہوں نے خود ہی اپنے پاؤں تلے روندھ ڈالا اور درجنوں ’’لوٹے‘‘ اپنے اردگرد کھڑے کر لیے. نارووال کے آخری بچنے والے’’ لوٹے‘‘ کو بھی  چند دن پہلے اپنی پارٹی میں واپس لے لیا گیا ہے.
ان کا نام میاں رشید ہے جو متعدد بار مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے اور 2018 میں وہ اپنے نیچے والے ایم پی اے اویس قاسم کو بھی ساتھ لے کر پی ٹی آئی میں چلے گئے. اویس قاسم دو سال بعد پی ٹی آئی چھوڑ کر دوبارہ ریاستی الیکشن میں ن لیگ کے ساتھ جڑھ گئے لیکن میاں صاحب کا پی ٹی آئی کے ساتھ ایک لمبا سفر ہے. 2024 کا الیکشن بھی انہوں نے ن لیگ کے خلاف بھرپور لڑا. لیکن اس مفاداتی سیاست کا عجب عالم دیکھیے کہ ایک اویس قاسم کو واپس لینا گوارا نہیں کیا اور خود احسن اقبال نے نعرے بلند  کیے کہ اویس قاسم لوٹا ہے ،اسے واپس نہیں لیں گے، چاہے نارووال میں ن لیگ دھڑوں میں تقسیم ہوجائے لیکن اسی کے ساتھ پارٹی چھوڑ کر جانے والے اور اس سے زیادہ دیر تک پی ٹی آئی کے ساتھ رہنے والے میاں رشید   کو انکے گھر جا کر احسن اقبال   مناتے نظر آئے کیونکہ اب معاملہ اپنے لخت جگر کا تھا.

خیر یہ سیاسی تضاد کے وہ پہلو ہیں جن میں سیاست پر ذاتی مفادات  غالب ہیں لیکن چائے کی ایک سے زائد پیالی کو ملکی معیشت کے لیے ترک کردینے اور سادگی کے مشورے دینے والے وزیر سے  چند سوال ہیں.

پونے دو ارب ڈالر سے منگوائی جانے والی چائے پر آپ کو ملکی معیشت کی تباہ حالی کا نوحہ یاد ہے لیکن آپکی چھوڑی ہوئی سیٹ پر دوبارہ الیکشن ہونا ہے اور اس پر کروڑوں روپے خرچ ہونے ہیں. کیا یہ ملکی معیشت کے لیے فائدہ مند ہے؟

پورے حلقے میں کروڑوں روپے کا جو پیٹرول ضائع ہوگا کیا اس سے معیشت مظبوط ہوگی؟

پورے حلقے کے عوام کو دوبارہ اس عمل کا حصہ بننے کے لیے اپنا وقت اور پیسے خرچ کرنا پڑے گا،  کیا اس سے ظفروال کے عوام پر ڈالروں کی بارش ہوگی؟

پونے دو ارب ڈالر سے آنے والے چائے پر  سادگی کے درس نیک شگون ہیں لیکن 17 ارب ڈالر سے آنے والے پیٹرول اور ڈیزل کے بے دریغ استعمال پر خاموشی کیوں ہے؟؟؟؟

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

.

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -