کالج کے باربر کے منہ سے انکی اپنی ایجاد کردہ گالیاں بھلی لگتی تھیں جو صرف خاص خاص طالبعلموں کیلئے تھیں لیکن انکی مسکراہٹ سب کیلئے تھی

کالج کے باربر کے منہ سے انکی اپنی ایجاد کردہ گالیاں بھلی لگتی تھیں جو صرف خاص ...
کالج کے باربر کے منہ سے انکی اپنی ایجاد کردہ گالیاں بھلی لگتی تھیں جو صرف خاص خاص طالبعلموں کیلئے تھیں لیکن انکی مسکراہٹ سب کیلئے تھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:115
 کالج کا زوال؛
 ڈگری کلاسز میں تھا تو کالج کا برا وقت شروع ہو گیا تھا۔ ایف سی کالج سے پروفیسر ڈاکٹر انوار برکت(جو اعلیٰ پائے کے منتظم تھے) بڑے تحمکانہ انداز میں اسلامی جمعیت کے احتجاج پر کالج چھوڑنا پڑا تھا۔ وہ کالج چھوڑ کر امریکہ چلے گئے۔ ان بیگم کنیرڈ کالج کی وائس پرنسپل ہوا کرتی تھیں۔ آفتاب چیمہ(بعد میں انسپکٹر جنرل آف پولیس بھی رہے۔)جمعیت کے صدر تھے۔ انورا برکت صاحب کی جگہ ریاضی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ میر یعقوب صاحب پر نسپل بنے تو کالج کا رہا سہا امیج بھی ختم ہو گیا۔ یہ کالج کے زوال کا دور تھا۔
پروفیسرحامد سعید کالج کی ہر دلعزیز شخصیات میں سے ایک تھے۔ پڑھاتے تو وہ باٹنی تھے لیکن کرکٹ ٹیم کے انچارج بھی تھے۔ کھلاڑیوں کو بچوں کی طرح سمجھتے اور ان کے ہر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملا تو وہ پہلے رجسٹرار مقرر ہوئے۔ انہوں نے ہمیشہ ہی مجھے اپنے بچوں کی طرح سمجھا اور میرے بیٹے عمر کے کالج میں داخلے کے وقت بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔ ان سے دعاؤں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سر! آپ کا ہمیشہ ممنون رہوں گا۔اسی طرح میرے شماریات کے استاد پروفیسر نجمی صاحب، پروفیسرحافظ طارق صاحب، پروفیسر صفدر مرزا صاحب(حامد سعید صاحب کچھ عرصہ کے لئے ملک سے باہر چلے گئے تو یہ ان کی جگہ کرکٹ ٹیم کے انچارج مقرر ہوئے تھے ویسے وہ فزکس کے استاد تھے) پروفیسر ڈلہوی صاحب(جغرافیہ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے) پروفیسر ایلون ابدیا(معاشیات کے استاد تھے)۔ کس کس کو یاد کروں۔
نصیر بھائی اور جنرل پرویز مشرف؛
 یہاں کالج کے باربر نصیر بھائی کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔ وہ ہنس مکھ محبت کرنے والا چھوٹے قد کا بڑا آدمی تھا۔جنرل پرویز مشرف سے لے کر اس نے بڑے بڑے نامیوں کے بال کاٹے، ٹنڈ کیں۔وہ ہر دور کا ہر دلعزیز شخص تھا۔ اس کے منہ سے اس کی اپنی ایجاد کردہ گالیاں بھلی لگتی تھیں جو صرف خاص خاص طالب علموں کے لئے مخصوص تھیں لیکن اس کی مسکراہٹ سب کے لئے تھی۔ عام بچے کے ساتھ وہ بہت سنجیدہ رہتا تھا لیکن کھلاڑیوں کے ساتھ اس کو خاص انس تھا۔ان کو وہ چائے بھی پلاتا تھا اور اپنی گالیوں کا تبرک بھی پیش کرتا تھا۔ اپنی موت تک اس نے 55 سال کالج میں گزارے۔ وہ کالج کی تاریخ کا ایسا کردار تھا جس کے بغیر یہ تاریخ ادھوری ہے۔ کالج میں پڑھائی اور کھیلوں میں بہترین کارکردگی والوں کے نام آنر بورڈ پر لکھے جاتے ہیں، میڈل ملتے ہیں جبکہ نصیر بھائی کا نام دلوں پر لکھا گیا ہے۔ 
پرویز مشرف جب چیف ایگزیکٹیو بنے تو کالج کے ایک کانوکیشن میں بطور مہمان خصوصی تشریف لائے۔ میں نے نصیر بھائی سے پوچھا؛”بھائی! پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی؟“ کہنے لگا؛”جب وہ آئے تو ریکٹر صاحب سے پوچھا یہاں نصیر بھائی ہوتا تھا۔ کہاں ہے۔“بتایا گیا کہ وہ اب بھی ہے۔ کہنے لگے؛”میں اس سے ملنا چاہوں گا۔“ مجھے بلایا گیا۔ میں سٹیج کے قریب پہنچا تو سیٹرھیوں کے پاس آکر مجھے ملے گلے لگایا۔ میں نے اس کے کان میں اپنی مخصوص گالی دی، وہ مسکرایا اور بولا؛”تم ویسے کے ویسے ہی ہو۔“ سٹیج پر مجھے اپنے ساتھ بٹھایا۔”گزورڈ ہال(زمانہ طالب علمی میں وہ اسی ہوسٹل میں قیام پذیر تھے۔) کھانے پر گئے تو مجھے بھی ساتھ لیا۔ کالج سے جانے لگے تو بولے؛”نصیر بھائی! میں تمھارے کسی کام آ سکتا ہوں۔“ ان کے بڑے اصرار پر میں نے کہا؛”ابے! میری آنکھوں کا آپریشن کروا دے۔“ اگلے ہی روز مجھے پروٹوکول کے ساتھ آپریشن کے لئے لے جایا گیا۔ نقد رقم بھی بھجوائی۔ جب اپریشن ہو گیا تو پھول اور ”جلد صحت یابی“ کا کارڈ بھی بھجوایا۔ وہ اپنی بات سنا کر کسی اور کے ساتھ باتوں میں لگ گیا اور میں سوچنے لگا کہ ایسے خود دار لوگ ابھی بھی ہیں۔ اس کے بچے بے روز گار تھے۔ وہ ان کے لئے نوکری مانگ سکتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا بھی؛ ”بھائی! تو بچوں کے لئے نوکری مانگ لیتا۔“ سادگی سے جواب دیا؛”ابے!۔(گالی)۔۔۔ دل نہیں مانا۔“کچھ عرصہ قبل یہ خوددار بھی دنیا سے چلا گیا۔ اس کی بہت سی یادیں ایف سی کالج کرکٹ گراؤنڈ، اس کی باربر شاپ اور بوڑھ کے پرانے درخت کے نیچے بکھری پڑی ہیں جہاں وہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر لطیفے سنا اور سنایا کرتا تھا۔ عرصہ بعد کالج اس کی دوکان پر گیا تو مجھے محسوس ہوا وہ گراؤنڈ کنارے بوڑھ کے بڑے درخت کے نیچے لگے بنچ پر بیٹھا  میرے کان میں ایک گالی اور زور دار قہقہ اتار گیا تھا۔ اب اس کا بیٹا اس کے کام کو آگے بڑھائے ہوئے ہے لیکن اس کا خلا رہتی دنیا تک رہے گا۔ بڑا پن پرویز مشرف صاحب کا بھی تھا کہ وہ اس غریب باربر کو  اس بڑے عہدے پر پہنچ کر بھی نہیں بھولے تھے۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -