بخیل اور دلیل
کسی شاعر ہ نے سچ کہا تھا ”وہ سچ بولے گی مگر ہار جائے گی“ اور دوسرا فریق جھوٹ بولے گا مگر لاجواب کردے گا یہ مثال بخیل پرسو فیصدصادق آتی ہے۔ویسے تو ہر انسان کے پاس اپنے ہر فعل کی کوئی نہ کوئی دلیل ضرور ہوتی ہے مگر میرا مشاہدہ ہے جتنا دلیل کے معاملے میں بخیل خود کفیل ہوتا ہے اور کوئی نہیں ہوتا۔ویسے تو بخیل کونہ کسی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی وکیل کی۔سخی اللہ کی نظر میں معزز اور بخیل ذلیل ہوتا ہے مگر بخیل یہ بات سمجھنے میں بھی شدید بخل سے کام لیتا ہے۔بخیل کبھی عقیل نہیں ہوتا اور عقیل کبھی بخیل نہیں ہوتا۔ حاتم طائی کی مثال سے یہ واضح ہے کہ جو مرد اصیل ہوتا ہے وہ کبھی بخیل نہیں ہوتا اور جو بخیل ہوتا ہے وہ تو خود اپنا کفیل نہیں ہوتا۔بخیل کو جتنی ڈھیل ملتی رہتی ہے اس کے بخل کا دائرہ کاراتنا طویل ہوتا رہتا ہے۔بخیل ایک ایسی چیل کی مانند ہوتا ہے جو ساری زندگی دولت کے ہر ہر ذرے پر لپکتا جھپکتا رہتا ہے اوراندر ہی اندر سے تڑپتا رہتاہے وہ اپنا مال و دولت گنتا رہتا ہے اورایک دن اُس کے سانسوں کی گنتی پوری ہوجاتی ہے۔
زندگی اوردولت پرائی ہوجاتی ہیں۔بخیل زندگی جیسی سادہ چیز کو ہر لحظہ ثقیل کرتا رہتا ہے۔ دنیا میں بھلے بخیل کوڈھیل دی جائے اوراُس کی نکیل کھلی چھوڑ دی جائے روز محشر اُس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔آسمانی کتابیں بخیل کوسخت عذاب کی وعید سنانے میں ہمیشہ بڑی واضح اور سخی رہی ہیں۔بخیل کے رزیل اور ذلیل ہونے میں کبھی دیر نہیں لگتی۔بخیل کا بخل ایک ایسا قفل ہوتا ہے جو اس کی سوچ کو کبھی آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ بخیل دنیاوی معاملات میں بھلے جتنا بڑا عالم ہو، درحقیقت وہ جاہل ہی ہوتاہے۔بخیل سے بڑھ کر علیل کوئی نہیں ہوتا۔بخل ایک ایسی روحانی بیماری ہے جس سے تمام اکابرین نے پناہ مانگی ہے۔ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ بخیل کثیر اور سخی قلیل ہوں گے مگر سخی جتنے بھی قلیل ہوں گے انسانیت کے وکیل ہوں گے اللہ تعالی کی رحمت کی دلیل ہوں گے۔بخیل کا مال ایک ایسا وبال ہوتا ہے جو دنیا میں دوسروں کے کام نہیں آتا اور آخرت میں اس کے اپنے لیے آگ بن جاتا ہے اورعذاب بن جاتا ہے۔بخیلوں کی جماعت بھلے اپنی نظر میں بہت چالاک ہو گی۔ کتابوں میں لکھا ہوا ہے اُمت اپنے بخیلوں کی وجہ سے ہلاک ہو گی۔بخیل کے لیے نیکی مشکل اور گناہ آسان کر دیا جاتا ہے، اسے اپنے انجام سے انجان کر دیا جاتا ہے۔
میں جب بھی انگریزی کا لفظ کاؤنٹر پروڈ کٹیو پڑھتا یا سنتا ہوں سب سے پہلی چیز جو میرے دماغ میں آتی ہے وہ بخیل کا مال ہے۔عربوں کے دورجہالیت کے معاشرہ میں بھی بخیل ہونا اور رزیل ہوناہم معنی اورہم مطلب سمجھے جاتے تھے۔ بخیل آدمی کی معاشرے میں نہ کوئی عزت تھی اورنہ کوئی وقعت۔دنیا کے دیگر معاشروں میں بھی آج تک کوئی بخیل کا وکیل دیکھنے میں نہیں آیاآج کے دورمیں جہاں ہرطرف دولت کی پوجاہورہی ہے وہاں بخیلوں کی تعداد بھی شایدتاریخ میں سب سے زیادہ ہے جیسے جیسے دولت بڑھ رہی ہے حرص اور بخل بھی بڑھ رہا ہے٭۔انسان کوڑیوں کے بھاؤ تل رہا ہے مگراُس جیسے دوسرے انسان کواپنا بخل اتنا عزیز ہے کہ وہ آنکھ اُٹھا کرنہیں دیکھتاکہ اُس کے ہم جنسوں پرکیسی قیامت طاری ہے اوراُن کیلئے زندگی کی ہر گھڑی کتنی بھاری ہے ہرپل،ہرلحظہ،ہرسانس ایک نئی خواری ہے مگربخیلوں کوتواپنی دولت پیاری ہے اورانہوں نے اپنے بخل پر کائنات کی ہرچیز واری ہے، مگریہ جوسانس کی آری ہے اس کا واربہت کاری ہے اورایک دن سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاتا ہے اوربنجارہ اس دنیا سے جاتا ہے قبر میں بخل کچھ کام نہ آتا ہے۔سخی کیلئے ثواب ہی ثواب ہے تو بخیل کیلئے عذاب ہی عذاب ہے کاش بخیل کو اندازہ ہوتا دولت ایک سراب ہے ہردورکے قارون کویہ قانون فطرت بھول جاتا ہے کہ دنیا سے عارضی اُس کا ناطہ ہے دنیا تو ایک امتحان ہے اورانسان نے ہرسانس کاحساب دینا ہے خوش بخت وہی ہے جوسخاوت کی عظمت کو سمجھ گیااورجس نے دولت کا روگ دل سے نہ لگایااوردل کی دولت کوہی اپنااثاثہ جانا۔بخیل وہ بدقسمت اور بدعقل انسان ہوتاہے جواپنی اگلی عمر کیلئے آگ اور عذاب اکٹھاکرنے میں یہ عمر گزار دیتا ہے اپنے تمام رشتے ناطے اپنے بخل پرواردیتا ہے اور اپنا سب کچھ ہاردیتا ہے۔اللہ پاک سے نہایت عاجزی سے دعا ہے کہ ہمیں بخیل بننے سے محفوظ رکھے اورہمیں ہرطرح کی سخاوت کے قابل بنائے۔ اللہ ہمیں ہرطرح کے بخل سے اورہرطرح کے بخیل سے بچائے ۔آمین