گاڑیوں پر آن لائن ہونے والے فراڈ (1)

یہ جدید دنیا ہے جس میں مواصلات کے ذرائع یعنی کمیونی کیشن کے ٹولز کی حکمرانی ہے۔ آج سے چند سال پہلے کسی کے پاس کوئی موبائل فون نہیں تھا‘ کمیونی کیشن کے لیے دوسرے ذرائع استعمال کیے جاتے تھے جو بہت سست رفتار ہوتے تھے اور جن کے ذریعے رابطے کرنے میں گھنٹوں اور بعض اوقات کئی کئی دن لگ جاتے تھے۔ مثلاً خطوط بھیجے جاتے تھے یا پھر ٹیلی فون تھا‘ جس کے ذریعے شہر کے اندر کال ملانا تو آسان تھا‘ لیکن دوسرے شہر کال ملانا ایک مشکل امر تھا‘ اور اگر کہیں کبھی بیرونِ ملک کال کرنا پڑ جاتی تو کئی کئی گھنٹے لگ جاتے تھے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کسی چمتکار سے کم نہیں ہیں۔ ان آلاتِ مواصلات نے دنیا کو واقعی ایک گلوبل ولیج بنا دیا ہے جس میں دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے میں کسی سے بات کرنا چند سیکنڈز کی بات ہے۔
آج پاکستان کی زیادہ تر آبادی کے پاس موبائل فون موجود ہیں اور رابطہ کاری یعنی کمیونی کیشن آج سے چند سال پہلے کی نسبت بہت آسان ہو چکی ہے‘ لیکن ہر سہولت جہاں بہت سی آسانیاں لاتی ہے وہاں کچھ مسائل پیدا کرنے کا باعث بھی بنتی ہے‘ اور آج کل ان میں سب سے اہم آن لائن شاپنگ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کئی ایسی ایپس بنائی جا چکی ہیں جن کے ذریعے آپ کے لیے گھر بیٹھے مطلوبہ چیز کا آرڈر دینا آسان ہو چکا ہے۔ آپ ایک فون کال کرتے ہیں یا ایک میسج بھیجتے ہیں‘ کھانے پینے کی کسی چیز کا آن لائن آرڈر دیتے ہیں تو چند منٹوں میں وہ چیز آپ کے دروازے پر فراہم کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح آپ کپڑوں‘ شوز‘ کچن آئٹمز یا اسی طرح کی کسی اور چیز کا آرڈر دیتے ہیں تو وہ بھی ایک دن میں یا دو چار دنوں میں آپ کو موصول ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا یہ بہت بڑی سہولت ہے‘ لیکن ساتھ ہی یہ ایک بہت بڑی زحمت بلکہ خرابی بھی بن چکی ہے۔ زحمت اس طرح کہ آپ کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جس چیز کا آپ نے آرڈر دیا تھا‘ اور جو چیز آپ کو فراہم کی گئی ہے دونوں کی کوالٹیز ایک جیسی ہیں‘ یعنی واقعی آپ کو وہی چیز موصول ہوئی ہے‘ جس کا آپ نے آرڈر دیا تھا یا جو چیز آن لائن ایپ پر ڈسپلے کی گئی تھی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق آن لائن فراڈ کے ضمن میں جن ممالک کی مثالیں دی گئی ہیں ان کو بہت حد تک کسی بھی ملک پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر انڈیا‘ پاکستان کو ہی لے لیں جہاں آپ کو آئے دن اخباروں میں آن لائن دھوکہ دہی، دھاندلی یا جعل سازی کی خبریں نظر آئیں گی۔ آپ کو بھی کبھی کوئی فون کال، ایس ایم ایس یا ای میل موصول ہوئی ہو گی، جس میں آپ کو رومانس، سیکس، کبھی لاٹری یا کسی بھی قسم کی تازہ اپ ڈیٹ کے لیے کسی لنک پر کلک کرنے کے لیے کہا گیا ہو گا یا آپ سے مخصوص معلومات طلب کی گئی ہوں گی۔ ہاتھ میں سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے بڑھتے رجحان نے دنیا کو ڈیجیٹل پنکھ لگا دیے ہیں جس میں دھوکہ دہی کے طریقے بھی ڈیجیٹل ہو گئے ہیں۔
آن لائن فراڈ کیا کیا ہوتے ہیں اس پر پھر کبھی بات کر لیں گے‘ فی الحال میں آن لائن ایپس کے ذریعے گاڑیوں کی فروخت میں ہونے والے گھپلوں اور خرابیوں کے بارے میں اپنے قارئین کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ گاڑیوں میں فراڈ مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ فراڈ ہے جو فراڈیا آپ کے ساتھ کرتا ہے۔ ایک وہ فراڈ ہے جس میں ڈیلر آپ کے ساتھ فراڈ کرتا ہے۔ ایک وہ فراڈ ہے جو عوام عوام کے ساتھ کر رہے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا کہ ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے تو جس کسی نے گاڑی خریدنا ہوتی ہے وہ انٹرنیٹ کا سہارا لیتا ہے۔ ہر شخص ظاہر ہے کم قیمت میں اچھی اور قیمتی گاڑی خریدنے کا خواہش مند ہوتا ہے‘ تو اس خواہش کا یہ لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آپ فلٹر لگا کر کم سے کم پرائس والی گاڑی کا انتخاب کرتے ہیں اور دیے گئے نمبر پر کال کرتے ہیں۔ اگلا بندہ بڑے اچھے طریقے سے آپ سے بات کرے گا۔ بتائے گا کہ فلاں پوش ایریا میں رہتا ہوں‘ یہاں پہ آ کر گاڑی دیکھ لیں۔ جب آپ تیار ہو کر جانے لگیں گے تو اچانک آپ کو کال آ جائے گی کہ آپ نہ آئیں کیونکہ گاڑی کا ٹوکن ہو گیا۔ اب وہ گاڑی آپ بھی خریدنا چاہ رہے ہوتے ہیں کیونکہ آپ کے خیال میں وہ اچھی ہوتی اور سستی بھی۔ 20 لاکھ قیمت والی گاڑی آپ کو 17 یا 18 لاکھ میں مل رہی تو ایکسائٹمنٹ قدرتی ہے۔ بیچنے والا ویب سائٹ یا ایپ پر واضح طور پر لکھتا ہے کہ اس نے گاڑی ارجنٹ بیچنی ہے اور آج ہی بیچنی ہے۔ آپ اسے کہیں گے کہ پہلے والا ٹوکن واپس کر دو‘ میں ابھی ٹوکن بھیج دیتا ہوں‘ اور اس سے زیادہ بھیج دیتا ہوں۔ آپ اسے فوری طور پر 10 یا 20 یا 30 ہزار ٹوکن (جو پہلے والے بندے سے زیادہ ہو گا) اسے بھجوا دیتے ہیں‘ تو وہ آپ سے کہے گا کہ آپ کا ٹوکن آ گیا ہے‘ آپ میرے پاس تین یا چار گھنٹے بعد آئیے۔ تین چار گھنٹے میں وہ کافی سارے لوگوں سے ٹوکن لے کر پانچ سات لاکھ اکٹھے کر کے اپنا نمبر بند کر چکا ہو گا۔ پھر آپ اس کو تلاش کرتے رہ جائیں گے۔
آپ کے خیال میں اس سارے عمل میں قصور کس کا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا جس نے جھوٹ بول کر لوگوں سے ٹوکن اکٹھے کیے۔ آن لائن ایپس کی ذمہ داری ہم اس وجہ سے نہیں کہہ سکتے کیونکہ انہوں نے تو ایک پلیٹ فارم دیا ہوا ہے۔ ہم ان کو ٹارگٹ نہیں کر سکتے کہ ان کی وجہ سے فراڈ ہو رہا ہے۔ اور گاڑیوں کا فراڈ محض اس ایک طریقے سے ہی نہیں ہو رہا ہے۔ کئی لوگ ایسے ہیں جو آپ کو بلاتے ہیں‘ گاڑی بھی دکھا دیتے ہیں لیکن کرتے وہ بھی فراڈ ہی ہیں۔ آپ جائیں تو وہ شاپ پر کھڑے ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ گاڑی دیکھ لیں۔ جب آپ کہیں کہ گاڑی میں نے لینی ہے تو وہ کہیں گے میں آپ کو شام کو بلاتا ہوں۔ شام کو جب آپ دوبارہ اس کو کال کریں گے وہ کہے گا کہ ہماری ڈیل ہو رہی ہے۔ اگر آپ نے فائنل کرنا ہے تو اپ مجھے ٹوکن لگا دیں۔ پھر میں ڈیل نہیں کروں گا۔ آپ اس کو 50 ہزار ٹوکن کا لگا دیں گے۔ وہ اگلے دن آنے کا کہے گا۔ اگلے دن وہ بندہ آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا۔ اس نے دو تین دن کے لیے اپنی سم آن کی ہوئی تھی اور اسی وجہ سے اس نے کارروائی ڈالی‘ پیسے اکٹھے کیے اور نکل گیا۔
(جاری ہے)