راولپنڈی شہر۔۔۔۔۔ تاریخ کے آئینے میں

راولپنڈی پنجاب کا معروف شہر اور ضلع ہے، جو پاکستان کے دار حکومت اسلام آباد کے ساتھ متصل ہے۔ اس کے مشرق میں دریائے جہلم ہے۔ شمال میں اسلام آباد، جنوب میں ضلع جہلم اور چکوال جبکہ مغرب میں ضلع اٹک واقع ہیں۔ ضلع راولپنڈی میں سات تحصیلیں شامل ہیں۔ مری، کہوٹہ، راوالپنڈی، گوجر خان، کلر سیداں، کوٹلی ستیاں اور ٹیکسلا۔ یہ ضلع پوٹھوہار کے علاقے میں واقع ہے جس کی تہذیب انتہائی قدیم بتائی جاتی ہے۔ اس کی ثقافتی اور تاریخی بنیادیں بدھ مت کے آغاز سے لے کر اسلامی دور حکومت، برطانوی راج اور قیام پاکستان کے بعد کے شہر میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ راولپنڈی برصغیر کا ایک تاریخی خطہ رہا ہے۔تقریباً تین لاکھ بیس ہزار سال قبل کے راولپنڈی شہر کے قریب دریائے سواں کے کنارے چونترا،ادی آلہ ہل پور اور روات سے پتھر کے اوزار بھی ملے ہیں، جنہیں ڈاکٹر احمد حسن دانی نے اسلام آباد کے عجائب گھر میں محفوظ کر رکھا ہے۔ مارگلہ پہاڑی سلسلے کی گود میں ہندوؤں کا متبرک علاقہ سید پور صدیوں سے آباد چلا آ رہا ہے۔ یہاں شری رام چندر جی اپنے بن باس کے زمانے میں آئے تھے۔ ہندوؤں کے مطابق گھپت گنگا کا پانی رام کنڈ، سیتا کنڈ، چمن کنڈ اور ہنومان کنڈ سے ہوتا ہوا دریائے لئی بن جاتا تھا۔ پیر و دہائی سے لے کر آریا سماج مندر اور ٹیپو روڈ تک ہندوؤں کے مندر شمشان گھاٹیں اور سما دیاں ہوا کرتی تھیں۔ 1003ء سے 1005ء تک سلطان محمود غزنوی نے موجودہ صدر بازار میں جی پی او سے لے کر آرمی اسٹیڈیم تک پڑاؤ ڈالاتھا۔ سکندر اعظم کے حملے کے وقت راولپنڈی کو" امنڈا" کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مغلیہ دور میں اسے" سندھ ساگر" کا نام دیا گیا اور اس میں مزید علاقے شامل کر کے فتح پور محل کے نام سے موسوم کیا گیا۔ چودہویں صدی میں مغلوں کی یورش کے دوران یہ شہر بالکل تباہ ہو گیا تھا اور کافی عرصے تک ویران رہا۔ پھر گگھڑ قوم کے ایک سردار جھنڈے خان راول نے اسے از سر نو آباد کیا اور اپنے نام پر اس کا نام راول پنڈی رکھ دیا۔ پنڈی کا مطلب ہے، چھوٹا گاؤں۔ تزک جہانگیری میں اس گاؤں کا تذکرہ ملتا ہے۔رفتہ رفتہ گوال منڈی، نیا محل، ورکشاپی محلہ، راجہ بازار، باغ سرداراں، محلہ شاہ چین چراغ، وارث خان، بنی تالاب، محلہ امام باڑہ اور ڈھوک کھبہ کے نام سے وسیع آبادیاں بنتی چلی گئیں۔ محلہ نیاریاں میں مسجد گولیاں والی اب بھی موجود ہے۔ یہ مسجد 1010ہجری میں شہنشاہ جہانگیر کے عہد میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس سے پہلے محلہ نیاریاں محلہ سرائے کہلاتا تھا، جس میں کشمیر اور افغانستان کے سیاح اور تاجر پڑاؤ کیا کرتے تھے۔ دراصل جوشان وشوکت راولپنڈی کو سکھوں کے دور میں حاصل ہوئی، وہ کسی اور دور میں اس علاقے کو نہ مل سکی۔ہندوؤں کے چند مقامات کو چھوڑ کر سکھوں نے یہاں حویلیاں، باغات، قلعے اور گوردوارے تعمیر کروائے۔ راولپنڈی کی جامع مسجد قاضی گوہر علی اور حسن علی ساکن موضع قاضیاں نے تعمیر کروائی۔ راجہ جہانداد عرف جھنڈے خان کے دور حاکمیت یعنی 18 ویں صدی عیسوی کے نصف اول میں راولپنڈی ایک بڑے قصبے کی صورت اختیار کر چکا تھا کیونکہ جھنڈے خان نے بھیرہ، میانی، پنڈ دادنخان اور چکوال کے تاجروں کو راولپنڈی میں آباد ہونے کی سہولتیں بہم پہنچائی تھیں۔ دریائے جہلم کے کنارے پر آباد بہت سے ہندو نیاریے بھی راولپنڈی میں آبسے۔ یہ نیاریے دریائے سواں کی ریت سے سونا نکال کر اپنا پیٹ پالتے تھے۔ راولپنڈی سردار مقرب خان کے عہد تک گگھڑوں کے ماتحت رہا۔ 1765ء میں سکھوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد راولپنڈی پر سکھوں کا قبضہ ہو گیا۔ انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا تو راولپنڈی کو ضلع بنایا گیا اور اس میں راولپنڈی، اٹک کہوٹہ، مری، پنڈی گھیپ، گوجر خاں اور فتح جنگ کی تحصیلیں شامل کی گئیں۔ 1904ء میں یہ ضلع دو حصوں میں تقسیم کر کے اٹک کو الگ ضلع بنادیا گیا۔ پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے بعد 1851ء میں لارڈ ڈلہوزی نے راولپنڈی کو ناردرن کمانڈ کی 53 ویں رجمنٹ کا ہیڈ کوارٹر بنا کر یہاں متحدہ ہندستان کی سب سے بڑی چھاؤنی کی بنیاد رکھی۔ 1879ء میں پنڈی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام شروع ہوا جو یکم جنوری 1886ء کو مکمل ہوا۔ پھر جب اسلام آباد کو دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو کئی سال تک اسلام آباد کی تعمیر ہونے تک راولپنڈی پاکستان کا عارضی دار الحکومت بنا رہا۔قیام پاکستان سے پہلے راولپنڈی کی آبادی زیادہ نہ تھی لیکن مہاجرین کی آمد کے بعد اس شہر کی آبادی 15لاکھ تک جا پہنچی۔ یہاں پاکستان آرمی کا جنرل ہیڈ کوارٹر بھی موجود ہے۔شہر راولپنڈی تقریبا 200 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث، چھاؤنی اور دوسرے حصوں میں اب تک کئی گاؤں اس میں ضم ہو چکے ہیں۔ راولپنڈی کی مشہور ترین چیز نالہ لئی ہے جو شہر کے بیچوں بیچ تقریباہر محلے سے گزرتا ہے۔ برسات کے موسم میں تیز و تند دریا بن جاتا ہے۔ صنعتی اعتبار سے بھی راولپنڈی ایک بڑا شہر ہے۔ تیل صاف کرنے، لوہے کے آلات، پرزے بنانے، سوتی اور ریشمی کپڑے تیار کرنے، سیمنٹ کے کارخانے، دالیں دلنے، آٹا پیسنے، فوڈ انڈسٹریز، شیشہ سازی، فاؤنڈری اور گارمنٹس کے بھی متعدد کارخانے یہاں کام کر رہے ہیں۔ لیاقت باغ راولپنڈی کا سب سے قدیم باغ ہے۔ یہ باغ پہلے کمیٹی باغ کہلا تا تھا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کو16 اکتوبر1951ء کو اس باغ میں شہید کیا گیا تو اس کا نام تبدیل کرکے لیاقت باغ رکھ دیا گیا۔ لیاقت باغ کے قریب ہی 2008 ء میں پاکستان کی سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا۔ راولپنڈی کا گولف کورس1926ء میں بنایا گیا۔ یہ پاکستان کا قدیم ترین گالف کلب ہے۔یہاں سے پاکستان کے ہر شہر کی طرف ٹرانسپورٹ جاتی ہے۔ ناران، کاغان، ایبٹ آباد، چترال، سوات اور گلگت کی سیر و سیاحت کو جانے والے سیاح اپنے سفر کا آغاز راولپنڈی سے ہی کرتے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ پہاڑی بولی بولتے ہیں۔ ارد گرد کے تمام لہجوں کی آمیزش سے پنڈی وال پوٹھوہاری لہجہ وجود میں آیا ہے۔ ان میں پہاڑی، چھاچھی، سرائیکی، پوٹھوہاری، پنجابی، بھیمی اور ہندکو کے تمام لہجے شامل ہیں۔ یہ شہر تاریخی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔