کیا کوئی اور کسر رہ گئی،نئے بحران کیوں؟
تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض کیا اور جیل میں مقید ہوتے ہوئے میڈیا سے بات کی، ان کی طرف سے یہ سلسلہ تب سے جاری ہے جب سے وہ گرفتار ہو کر جیل پہنچے، ان کے خلاف زیر التواء مقدمات کی سماعت اور تفتیش بھی جیل ہی میں ہوئی اور سماعت کے دوران چند میڈیا والے بھی موجود ہوتے ہیں، خان صاحب، غیر رسمی گفتگو کے نام پر جو جی میں آئے کہہ گزرتے ہیں اس کے علاوہ جب ان کے وکلاء اور پارٹی لیڈر ملاقات کے لئے جاتے ہیں تو وہ جیل کے باہر منتظر میڈیا سے ضرور بات کرتے اور کپتان کا پیغام سناتے ہیں، یوں عمران خان کا یہ بھی ریکارڈ بن گیا ہے کہ وہ سزا یافتہ قیدی ہوتے ہوئے بھی نہ صرف پارٹی چلا رہے اور مرضی سے نام دے کر ملاقات کے لئے پارٹی رہنماؤں کوبلاتے اور ان سے مشورہ کرکے احکام بھی جاری کرتے ہیں، اب تو انہوں نے لاہور کے مجوزہ جلسے کے حوالے سے عوام سے کہا ہے کہ وہ کشتیاں جلا کر جلسہ میں پہنچیں، ان کے اس بیان کے بعد پشاور سے بیرسٹر سیف نے نپے تلے الفاظ میں لاہور پر یلغار کا عندیہ دیا ہے، وہ کہتے ہیں، لاہور کا جلسہ سارے ریکارڈ توڑ دے گا، خیبرپختونخوا سے وزیراعلیٰ،علی امین گنڈاپور قیادت کریں گے،پورے صوبے سے قافلے صوابی انٹرچینج پہنچیں گے اور وہاں سے لاکھوں انسانوں کا سمندر روانہ ہو کر لاہور پہنچے گا۔ مذکورہ بیان ہی سے ارادوں کا اندازہ لگالیں کہ تشبیہ سمندر کے طوفان سے دی جاتی ہے تو مطلب یہی ہوا کہ خیبرپختونخوا کے انصافیوں کی یہ یلغار فتح کے لئے ہے اور فاتح کی جو مرضی ہوتی ہے وہ مفتوح کے ساتھ کر گزرتا ہے تو ہم لاہوریوں کو ابھی سے یہ فکر لاحق ہو گئی ہے کہ کہیں یہ یلغار ہمارا بھی سب کچھ نہ لے جائے، اس لئے ہمیں پہلے ہی سے خود کو محفوظ جگہ پر چھپ جانا چاہیے۔
میں سپریم کورٹ کے فاضل جج حضرات کی طرف سے کئی فیصلوں پر غور کرتا رہا ہوں اور اب تو محسوس ہوتا ہے کہ جوڈیشل ایکٹوازم ہر جگہ موجود ہے اور یہ صاف نظر آتا ہے کہ حکومت کو چلنے نہیں دیا جا رہا ہے، یہ سو فیصد درست اور حقیقت ہے کہ ماضی سے لے کر اب تک ہماری پولیس ہنگامہ آرائی یا سیاسی معرکوں کے حوالے سے مقدمات افراتفری میں درج کرتی اور بعض اوقات بڑی بڑی مضحکہ خیز کارروائیاں سامنے آتی ہیں اور پراسیکیوشن کی طرف سے بھی موثر پیروی دیکھنے میں نہیں آتی اس لئے مقدمات میں ریلیف پر اچنبھا تو نہیں ہوتا، تاہم عدلیہ نے ریمارکس کے حوالے سے جو رویہ اپنا رکھا ہے اور جو فیصلے سامنے آتے ہیں، ان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نرم گوشہ موجود ہے اور اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ میں کیا چل رہا ہے۔
اب تو مخصوص نشستوں کے مختصر فیصلے (تفصیلی فیصلہ اب تک جاری نہیں ہوا) نے کئی اور رنگ اختیار کرلئے ہیں، فاضل جج حضرات نے الیکشن کمیشن کی طرف سے وضاحت کی اپیل کے جواب میں الیکشن کمیشن کو باقاعدہ ڈانٹ دیا اور ساتھ ہی خبردار کیا گیا کہ فیصلے پر من و عن عمل نہ ہوا تو اس کے نتائج بھی ہوں گے حالانکہ اس تنبیہ کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی فاضل جج حضرات سے پبلک اجتماع میں سیاست نما تقریروں کی توقع کی جاتی ہے مگر ایسا ہوا، حتیٰ کہ دوران سماعت ریمارکس / آبزرویشنز بھی رجحان ظاہر کرنے کا سبب بنتی ہیں، اس سلسلے میں گرامی قدر ڈاکٹر اقبال شہزاد شام کی یہ بات معقول ہی نہیں، بالکل درست لگتی ہے کہ وکلاء میں سے جج تعینات کرنے سے ایسے ہی رویے کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ بہرحال اب تو معاملہ ایک اور الجھن کی طرف چلا گیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے، عدلیہ اور پارلیمان(معہ حکومت) آمنے سامنے ہیں، سپیکر حضرات کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خطوط اور ان کے جواب میں سپیکر کے پی کے اسمبلی کا خط ایک نئی قسم کا بحران سامنے لے کر آیا ہے کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے سپیکروں کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ غیرموثر ہے اور الیکشن کمیشن کو اسمبلی سے منظور کئے جانے والے قواعد کا پابند ہونا ہوگا، الیکشن کمیشن اس سے پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے اس کے لئے سپریم کورٹ کے آٹھ فاضل جج حضرات کی وضاحت اور ہدائت مسئلہ بنی ہوئی ہے اور روزانہ اجلاس منعقد کئے جانے کے بعد بھی کمیشن کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا تھا کہ یہ نیا مسئلہ آ گیا، اب الیکشن کمیشن کو وفاق اور پنجاب کے موقف کی روشنی میں منظورشدہ قانون کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنا ہوگا اور پھر سپریم کورٹ کے فیصلے والے فاضل جج بھی تو موجود ہیں، وہ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں، وہ تو الیکشن کمیشن کے عمل پر منحصر ہے مجھے خدشہ ہے کہ فاضل اکثریتی جج حضرات یہ برداشت نہیں کریں گے، ان کی طرف سے ممکنہ طور پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے، اگرچہ اس میں بھی کئی امور زیر بحث آ سکتے ہیں، حتیٰ کہ توہین عدالت کے عمل کو بھی چیلنج کیاجا سکتا ہے۔
یہ حالات حالیہ عالمی حالات اور اسرائیل دوست بلکہ اسرائیل کے محافظ امریکہ کی طرف سے بھی کچھ نہ کچھ ردعمل کی توقع کرنا چاہیے کہ اب پھر اسرائیل کی حمایت کا دعویٰ صہیونیوں سے بھی بڑھ کر کیا گیا ہے جبکہ اسرائیل اب حزب اللہ کے ساتھ ساتھ لبنان کے خلاف بھی جنگ کا ارادہ کرچکا ہے اور خطے میں کسی بھی وقت یہ محاذ بھی کھل سکتا ہے کہ ایک بار پہلے بھی اسرائیل لبنان پر حملہ آورہو گیا تھا، یہ ایک ایسا بپھرا ہوا یونانی بیل جیسا ہو چکاجو کسی کے قابو نہیں آ رہا، افسوس صرف اتنا ہے کہ اسلامی ممالک میل، ملاقات اور زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ رہے۔ حالانکہ موجودہ معروضی حالات میں جب چین اور روس معاشی محاذ سے آگے بڑھ کراب باقاعدہ ایک بلاک بنانے جارہے ہیں تو اسلامی کانفرنس کو بھی کوئی فیصلہ کرنا ہوگا کیااب وقت نہیں آ گیا کہ اسلامی دنیا بھی مرنے مارنے پر آمادہ ہو جائے، کیا امریکہ اور اسرائیل عالمی جنگ کا خطرہ مول لیں گے؟ جب پانچ بڑے ممالک کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار ہیں اور ایران کو مشکوک گردانا جا رہا ہے جبکہ یوکرین کی حمائت کے جواب میں روس نے نیٹو کو خبردار کر دیا ہے کہ ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔
ان تمام تر حالات میں عالمی سطح پر بھی پاکستان کاکردار بڑا اہم ہے اس حوالے سے ہم توطویل عرصہ سے اس امر پر زور دیتے چلے آ رہے ہیں کہ ملک میں قومی مفاہمت لازم ہے لیکن یہاں مفاہمت کی بجائے محاذ آرائی بڑھ رہی ہے اور نئے محاذ کھل رہے ہیں۔ ہر کوئی (جماعتیں +افراد) اپنے اپنے مفاد کے پیچھے سرگرداں ہے کسی کو ملک کی فکر نہیں اور جہان تک عوام کا تعلق ہے تو ان کے لئے جماعتی تحریریں اور تقریریں ہی کافی ہیں جن سے پیٹ نہیں بھرتا، میں گزارش کردوں کہ اب عام آدمی کا جی بھر چکا اسے بھی سیاست سے نہیں پیٹ سے غرض ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہے،اب لیڈروں کی پکار اور للکار پر ان کے کارکن ہی ہوں گے عوام ساتھ نہیں ہوں گے کہ عوام اب جلسوں، جلوسوں کی وجہ سے ٹریفک کی رکاوٹوں اور راستے بند ہونے کو بھی پسند نہیں کرتے اور متعلقہ انتظامیہ اور حکومت کے ساتھ ساتھ جلسہ، جلوس والی جماعت اور ان کے رہنماؤں کو بھی برا بھلا ہی کہتے ہیں۔