ہاں میں بے وقوف ہوں

جب مخدوم جاوید ہاشمی نے ”ہاں میں باغی ہوں“ لکھی تھی تو ہر طرف واہ واہ ہو گئی تھی۔ ہر بندہ خود کو باغی سمجھنے لگا تھا۔ پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے یہاں ہر شخص سچ بولتا ہے مگر اپنے مطلب کا، اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، کوئی دوسرا اسے سچ سمجھتا ہے یا نہیں۔ آج کل تو یہ نعرہ نہ وہ باغی نہ غدار والا مشہور ہے، لیکن ماضی میں غدار اور باغی ہونے کا کریڈٹ لینے والے بھی سامنے آتے رہے۔ میں جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اب اپنے دماغ پر دو تھپڑ مارکر کہتا ہوں تو ساری عمر اور کچھ بھی نہیں رہا سوائے ایک بے وقوف انسان کے، جسے جی بھر کے بے وقوف بنایا گیا۔ کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی اسلام کے نعرے پر، کبھی جمہوریت کا لارا دے کر، کبھی آمریت کی خوبیاں گنوا کر، کبھی خوشحالی کی خبریں سنا کر اور کبھی مل کے دیوالیہ ہونے کی باتوں سے ڈرا کر، غرض بے وقوفی کی ایک ایسی چادر ہمارے چاروں طرف تانی گئی، جس نے ہمیں حقائق تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔ اس ملک میں فرقہ واریت کی آگ جلائی گئی تو بھی ہم بے وقوف بن گئے کہ شاید یہ کوئی کفر و اسلام کی جنگ ہے۔ ہزاروں بے گناہ اس آگ کی نذر ہو گئے۔ جنہوں نے ڈالر اور ریال لینے تھے وہ مالامال ہوتے گئے اور ہم جیسے بے وقوف غربت، بھوک اور افلاس کی چکی میں پسنے کے باوجود اس خوش فہمی میں مبتلا رہے، ہوائے دورِ مئے خوشگوار راہ میں ہے، خزاں چمن سے ہے جاتی ہوئی بہار راہ میں ہے۔ روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو ہمیں بتایا گیا اسلام پر حملہ ہو گیا ہے۔ یہ بات بھی نہ سمجھ سکے کہ حملہ اسلام پر ہوا ہے تو امریکہ کیوں اس خطے میں چڑھ آیا ہے۔ وہ تو اسلام کا دشمن ہے۔ اس کی ترجیح تو یہودیوں کا غلبہ ہے، جسے وہ پورے ایشیاء اور مشرق وسطیٰ پر قائم کرنا چاہتا ہے، مگرنہیں صاحب ہمارے اس دور کے حکمرانوں نے ہمیں باور کرایا اس وقت اسلام کا سب سے بڑا ٹھیکیدار امریکہ ہے، اسے اڈے نہ دیئے، روس کے خلاف اس کی مدد نہ کی تو گویا ہم اسلام کے باغی قرار پائیں گے۔ امریکہ کی سربراہی میں ہم نے جہاد کیا تو یہودی اس کی مکمل سپورٹ کرتے رہے۔ ہم پاگلوں اور بے وقوفوں نے یہ سوچنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی، کبھی اہلِ یہود بھی اسلام کی حمایت کر سکتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے لئے مردِ مومن مردِ حق، ضیاء الحق ضیاء الحق کے نعرے بھی ہم نے اس وقت لگائے جب یونیورسٹیوں کالجوں میں پڑھتے تھے۔ گویا ہم پڑھے لکھے جاہل تھے جنہیں یہ سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہم سے کتنا بڑا دھوکہ ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں تباہی ہوتی رہی۔ دہشت گردی، کلاشنکوف کلچر، منشیات فروشی، فرقہ واریت اور ہرہرائی در آئی مگر ہماری آنکھوں پر جہاد کی پٹی بندھی رہی۔
پھر یہ جہاد ختم ہو گیا، روس نے افغانستان سے رختِ سفر باندھ لیا۔ جیت امریکہ کی ہوئی مگر ہم اسے اپنی فتح سمجھ کر بھنگڑے ڈالتے رہے۔ جھٹکا اس وقت لگا جب امریکہ نائن الیون کے بعد روس کی جگہ خود افغانستان پر قبضے کے لئے چڑھ دوڑا، اس نے ہمیں حکم دیا کہ اب نئے جہاد کے لئے تیار ہو جائیں۔ اس جہاد کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔ کولن پاؤل کی ایک فون کال پر ہمارا نظام ڈھیر ہو گیا۔ امریکہ نے صرف اتنا کہا تھا ہمارے ساتھ اس نئے جہاد میں شامل ہو جاؤ وگرنہ تمہیں تورا بورا بنا دیا جائے گا۔ ہم جو سدا کے تابعدار ہیں اس بار بھی سرنڈر کر گئے۔ امریکہ کو اڈے دیئے، اس کی جنگ میں شامل ہوئے۔ پھر بے وقوف بن گئے کہ یہ جنگ ہماری نسلوں کی بقاء کے لئے ضروری ہے جو مجاہد ہم نے امریکہ کی مدد سے روس کے خلاف لڑنے کے لئے پیدا کئے تھے، انہیں تربیت دی تھی اب وہی امریکہ کا ہدف تھے۔ بے سوچے سمجھے اور ذاتی اقتدار کے لئے کئے گئے فیصلوں نے ہمیں پرائی آگ کا ایندھن بنا دیا۔ ہمارے ہزاروں بے گناہ شہری اس آگ کی نذر ہو گئے۔ معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا، سب سے بڑی مصیبت دہشت گردی کی صورت میں آئی۔ امریکہ نے افغانستان میں جو کھیل کھیلنا تھا کھیلا، جو لے جانا تھا لے گیا اور واپسی کی گھنٹی بجا دی۔ ہم بے وقوفوں نے پھر بھی جشن منایا، افغانیوں کو ان کی فتوحات پر مبارکبادیں دیں۔ یہ بھول گئے کہ امریکہ دہشت گردی کی جو آبیاری کر گیا ہے، اس کا خمیازہ تو ہمیں بھگتنا ہے۔ ہم اس خوش فہمی میں تھے کہ افغان طالبان اب ہمارے پاؤں دھو دھو کر پئیں گے کہ ہم نے ان کا بہت ساتھ دیا، مگر جلد ہی یہ خوش فہمی دور ہو گئی۔ آج ہم کہتے پھر رہے ہیں بلکہ دہائی دے رہے ہیں کہ افغانستان سے پاکستان میں مداخلت ہو رہی ہے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں، افغان حکومت انہیں ختم کرے، واہ واہ کیا سادگی ہے۔ کیا وہ چابی والے کھلونے ہیں کہ آپ جب چاہیں استعمال کریں اور جب چاہیں چھوڑ دیں۔ افغانی اب ایک بڑی گیم کا حصہ ہیں، انہیں عالمی طاقتوں سے رابطوں کے لئے پاکستان کی ضرورت نہیں رہی۔
سیاسی محاذ پر بھی ہماری بے وقوفی کی داستان بہت طویل ہے۔ آج تو کافی بات کھل چکی ہے کہ ہماری سیاست بھی ایک واہمہ تھی جسے ہم حقیقت سمجھتے رہے۔ اس بھگوان کے پردے میں تو کوئی اور بولتا تھا لیکن ہم اسے کبھی قائد عوام، کبھی شیرِ پاکستان، کبھی وقت کا سلطان اور کبھی جمہوریت کا پاسبان قرار دیتے رہے۔ یہ سب تو کاغذی شیر ثابت ہوئے۔ ہمیں حکمرانوں کی کرپشن کے قصے کہانیاں سنا کر بھی جی بھر کے بے وقوف بنایا گیا جس طرح بہت بعد میں سمجھ آئی تھی کہ انوکی اور جھارا پہلوان کے درمیان جو مقابلہ ہوا تھا وہ نوراکشتی تھی، اسی طرح یہ کرپشن والی نوراکشتی بھی ایک خاص مقصد کے تحت کی جاتی تھی۔ کبھی ایک جماعت کرپشن کی چیمپئن قرار پاتی تھی اور کبھی دوسری، کبھی ایک پر نیب چڑھ دوڑتا تھا اور کبھی دوسری پر، کبھی بے نظیر بھٹو گرفت میں آتی تھیں اور کبھی نوازشریف، کبھی سرے محل کی کہانی سنائی جاتی تھی اور کبھی ایوان فیلڈکی۔ سالہا سال گزر جاتے فیصلہ کسی کا بھی نہ ہوتا، کیونکہ اس کہانی کو منطقی انجام تک پہنچانا مقصود ہی نہیں تھا۔ پھر کہانی کی یکسانیت کو ختم کرنے کے لئے ایک تیسرا کردار لایا گیا۔ پہلے دونوں کردار معتوب قرار پائے۔ ہمیں بے وقوف بنانے کی کہانی میں نئی جان ڈال دی گئی، نئی کہانی کو یقینی بنانے کے لئے نئے پاکستان کی اصطلاح بھی متعارف کرائی گئی، مگر اس نئی کہانی کا انجام بھی وہی پرانا ہوا۔ اس میں سے بھی کرپشن کی وہی پٹاری نکلی جو ہمیشہ استعمال میں رہی۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں لیکن میں کم از کم اعتراف کرتا ہوں کہ وطن عزیز کا ازلی و ابدی بے وقوف ہوں اور خوئے بے وقوفی کا اس قدر عادی ہو چکا ہوں کہ اس سوشل میڈیا کے دور میں بھی مجھے بآسانی بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔