آمریت سے کمزورجمہوریت بھی بہتر ہوتی ہے!

  آمریت سے کمزورجمہوریت بھی بہتر ہوتی ہے!
  آمریت سے کمزورجمہوریت بھی بہتر ہوتی ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 یہ ملکی تاریخ کا ناقابل فراموش واقعہ ہے جب 1958ء میں جنرل ایوب خان نے جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ کر مارشل لاء لگایا تو لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں اور جمہوریت پر آمریت کو ترجیح دی، یہ الگ بات ہے کہ جلد ہی یہ خواب بھی دھندلانے لگے، تاہم ابتدا ایسی تھی کہ شہریوں نے سکھ کا سانس بھی لیا، خوراک سے متعلق اشیاء کی دکانوں پر جالیاں لگ گئیں، مقررہ قیمتوں پر اشیاء ملنے لگیں، اس سلسلے میں دلچسپ امر یہ ہے کہ جب مارشل لاء کا نفاذ ہوا تو دیسی گھی چار روپے فی سیر سے سوا چار اور ساڑھے چار روپے کے درمیان بک رہا تھا۔ تھوڑی زیادہ قیمت کا فرق علاقائی معیار سے تھا کہ اوکاڑہ اور ساہیوال (جنوب) کی طرف سے آنے والا گھی چار، آٹھ آنے فی سیر مہنگا تھا اور سرگودھا کی طرف والے گھی کی قیمت چار سے آٹھ آنے فی سیر تک کم تھی اور یہ چار روپے سے سوا چار روپے فی سیر بک رہا تھا، فوجی ایڈمنسٹریٹر نے قیمت چار روپے فی سیر مقرر کی اور لوگوں نے قطاریں لگا کر گھی خریدا اور دکان داروں نے سارا فروخت بھی کیا بہرحال تھوڑے عرصہ میں حالات معمول پر آ گئے اور روائتی کاروباری سرگرمیاں شروع ہو گئیں وہ دور یوں بھی ایسا تھا جس میں بددیانتی کی شرح 4سے 10فیصد تک بمشکل تھی، ورنہ تو بکرے کا گوشت 1روپے فی سیر تھا اور جب قصاب سے ایک پاؤ لیا جاتا تو وہ پہلے صاف کرتا اور پھر تولتا تھا اور ترازو کا جھکاؤ گاہک کے حق میں ہوتا تھا، آج کی طرح نہیں کہ چھیچھڑے اور آلائش سمیت تول کر بھی 2400روپے فی کلو بک رہا ہے۔

بات تو عوام کی طرف سے مٹھائی تقسیم کرنے کی تھی کہ ایسا عوام نے اس وجہ سے کیا کہ تب بھی ہمارے سیاست دان مفاہمت کی سیاست سے دور تھے اور حکومتیں بدلتی رہتی تھیں جس کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا، اگرچہ ہمارے باباء جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان اس کا بھی دفاع کرتے اور کہتے تھے کہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیا گیا، اگر ایوب خان مارشل لاء نہ لگاتے تو انہی سیاستدانوں نے 1956ء میں آئین منظور کرلیا تھا اور بات آگے بڑھ رہی تھی لیکن جنرل ایوب نے طالع آزمائی کی اور نہ صرف مارشل لاء لگایا بلکہ آئین بھی کالعدم قرار دے دیا اور پھر خود ہی ایک آئین دے کر نظام کو تبدیل کرکے صدارتی کردیا اور بلاواسطہ انتخابات کا طریقہ بھی تبدیل کر دیا، بالواسطہ طور پر بنیادی جمہوریت والے اراکین ووٹر ٹھہرے، یہ نوابزادہ (مرحوم) کی رائے تھی اور وہ اس پرمصر بھی رہے حالانکہ ایوب خان کو خواجہ صفدر جیسے سیاستدان اور منظور قادر جیسے ماہرین آئین و قانون کی خدمات بھی حاصل رہیں، بہرحال اس تبدیلی کا انجام بھی تبدیلی سے ہی ہوا تاہم ایوب خان یہ الزام لے کر قبرمیں جاسوئے اور ان کی اپنی کابینہ ہی کے ایک رکن(وزیر)ذوالفقار علی بھٹو جو میدان میں آ گئے تھے انہوں نے خود اپنی جماعت پیپلزپارٹی بنا کر ایوب کے خلاف جدوجہد بھی کی۔ وہ (ایوب)ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں سبکدوش ہوئے اور جاتے جاتے اپنے بنائے آئین کی خلاف ورزی بھی اوراقتدار سپیکر کے سپرد کرنے کی بجائے چیف آف آرمی  سٹاف جنرل یحییٰ کے سپرد کر گئے۔

یہ ایسے حالات اور واقعات ہیں جو بار بار دہرائے گئے، مجھے ان کا حوالہ دینے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ یحییٰ کے بعد جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار بھگت لینے کے باوجود ہمارے سیاسی رہنماؤں نے وہ شعور حاصل نہیں کیا جو نوابزادہ نصراللہ چاہتے تھے، ہمارے سیاست دان اور سیاسی جماعتیں آج بھی متحارب ہیں اور ان کے درمیان لچک نہیں ہے۔ اگرچہ 1973ء کا آئین ترامیم کے ساتھ آج بھی موجود ہے لیکن متحارب فریق اسی آئین کی پابندی کرنے کی بات کرتے اور اسی آئین کی روح کو مجروح بھی کرتے ہیں۔ اب بھی حالات بتدریج یہاں تک آ گئے کہ عوام کے اندر جمہوریت کے خلاف ذہن بننے لگا اور یہ راہنما ہی پھر سے حالات کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں، ماضی میں جب ایوب خان نے جمہوریت کا قتل کیا تو امن و امان کی حالت بہت خراب نہیں تھی اور نہ ہی کوئی بڑے خارجی چیلنج سامنے تھے لیکن موجودہ حالات میں تو دہشت گردی مسلط ہے، امن و امان کی حالت ابتر ہے، مہنگائی نے جان کھائی، بے روزگاری بڑھ گئی ہے، لوگ سیاست اور سیاست دانوں سے بے زار ہونا شروع ہو چکے ہیں، ان کا کہنا اور سوچنا بھی درست ہے کہ یہ سیاست دان جو ملک کو سنوارنے اور سنبھالنے کے دعویدار ہیں یہ آپس میں بات تک کرنا گوارا نہیں کرتے انہوں نے ملک کو کیا سنبھالنا ہے۔

آصف علی زرداری دوسری بات صدر بن گئے اور میاں محمد شہبازشریف کو بھی دوسرا موقع ہی ملا ہے۔ ہر دو جماعتوں کے درمیان مفاہمت بھی ہے لیکن دونوں جماعتوں کے درمیان نوک جھونک بھی ہوتی ہے۔ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ کابینہ میں کون کہاں سے آیا اور اب کیا ہے اور ملک میں ہو کیا رہا ہے، میرا ملک اتنا مقروض ہے کہ امور مملکت کے لئے قرضوں کی ضرورت رہتی ہے اور بیرونی قرضوں کا سود اور قسط ادا کرنے کے لئے نئے قرضے لئے جاتے ہیں، یہی ہمارے رہنما ہیں جو فرداً فرداً اتفاق کرتے ہیں کہ معاشی استحکام ضروری ہے اور اس کے لئے سیاسی استحکام لازم ہے لیکن عمل اس سوچ کے خلاف کرتے ہیں، اگر میں ماضی میں پلٹوں تو پھر بڑے تلخ واقعات یاد آتے ہیں تاہم ان واقعات کو مثبت قرر دینے والے بھی موجود اور صاحب اقتدار ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید) کے خلاف قابل اعتراض و نفرت پوسٹر بازی اور مہم جوئی کرنے والے انہی محترمہ بی بی کی حکومت میں اہم ترین وفاقی سیکرٹری ہوئے اور آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کے اقتدار میں ان کو امریکہ میں سفیر تعینات کیا۔ 

نوابزادہ نصراللہ کی کوشش سے ایک اچھا عمل ہوا کہ لندن میں بے نظیر بھٹو اور محمد نوازشریف کے درمیان محاذآرائی ختم کرنے کے لئے میثاق جمہوریت ہو گیا، اگرچہ سیاسی اغراض کی وجہ سے اس پر روح کے مطابق عمل نہ ہوا اور آج پھر عوام دیکھ رہے ہیں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان فقرے بازی ہو رہی ہے، حالانکہ ان کو جوڑے رکھنے والی فورس بھی موجود ہے، بات طویل ہو گئی، عرض صرف یہی ہے، جمہوریت خالی خولی الفاظ نہیں، عمل کا نام ہے ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ ہمارے تمام سیاسی رہنماء اپنے اپنے رویے پر غور کریں اور طرزعمل جمہوری اختیار کریں، ایک دوسرے کے دشمن نہ بنیں، اگر دوستی نہیں کرتے تو پارلیمانی تعلق تو بحال رکھیں کہ کمزور جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا ”جمہوریت ہی بڑا انتقام ہے“۔مولانا فضل الرحمان کی طرف دیکھیں جنہوں نے اکیلے پرواز کا اعلان کیا اور کہا کہ اتحاد والے تجربے ناکام رہے انہوں نے ایک اور بات کرکے اپنی واپسی کا انتظام بھی کرلیا ہے کہ اگر سیاست عدم مداخلت کا یقین دلا دیا جائے تو وہ حکومت کو مان لیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -