ریڈ انڈین جج اور بارود سے لیس آباد کار

کولمبس سے قبل مغربی نصف کرے میں کروڑوں ابنائے آدم بحسن و خوبی رہ رہے تھے۔ مکمل معلومات تو نہیں لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ معصوم ریڈ انڈین 4 تا 7 کروڑ میں تھے۔ زراعت، کاشتکاری اور گلہ بانی کرنے والے یہ لوگ مطلقاً آزاد تھے۔ جنگلی جانوروں اور درندوں گزندوں سے مقابلے کے لیے ان کے پاس تیر، نیزے، بھالے، تلواریں، اور گرز نما پتھوڑے تھے۔ باہمی جنگ میں بھی یہی ہتھیار ان کی کل کائنات تھی۔ دوسری طرف اس نو دریافت خطے پر اسپین، پرتگال، برطانیہ، اور فرانس سے آئے نو آباد کار حملہ آور ہلاکت خیز بارود سے لیس تھے۔ بارود کے سامنے تیر اور بھالے کہاں ٹھہرتے؟ 15ویں صدی کے آواخر میں شمالی امریکہ میں آباد لگ بھگ چھ کروڑ ریڈ انڈین آج صرف 30 تا 80 لاکھ رہ گئے ہیں۔ کروڑوں ریڈ انڈین کو یورپی حملہ آوروں نے بارود سے یوں نابود کیا کہ وہ انسان نہ ہوئے کھٹمل، مکھی یا مچھر قرار پائے۔
12 اکتوبر 1999 کو کولمبس ثانی نے جنرل یحییٰ سے بچ جانے والے خطہ ارضی پر دھاوا بولا تو ریڈ انڈین کے پاس نیزے بھالے بھی نہیں تھے۔ 15ویں صدی کے کولمبس کے جانشینوں نے ریڈ انڈین کے لیے وہ نظام تعلیم وضع کیا تھا جو عالمگیر نو آبادیاتی نعرے کا طواف کرتا تھا:Kill the Indian save the man (مفہوم: ریڈ انڈین کو فطرت سے ہٹا کر خالی الذہن بندہ بنا ڈالو)۔ لیکن کولمبس ثانی کے جانشین، اعلیٰ اور مصفیٰ بارود سے لیس ہیں۔ پاکستان نامی خطہ میں مقیم دیگر قبائل کا احوال کسی اور موقع پر، آج ضلعی عدلیہ نامی قبیلے کا ذکر کافی ہے۔ حال یہ ہے کہ بار کونسلوں کے آباد کار حملہ آور "واشنگٹن" نامی بستی سے تمام ریڈ انڈین کا صفایا کر چکے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اب ایک جج بھی نہیں جو کبھی سیشن جج رہا ہو۔ سب سے بڑی ریاست "نیویارک" سے بھی تمام ریڈ انڈین کا صفایا ہو چکا ہے. لاہور ہائی کورٹ میں ایک جج ایسا نہیں جسے سیشن جج سے ترقی ملی ہو. اسلام آباد ہائی کورٹ میں اب ایک ریڈ انڈین باقی نہیں ہے، بیشتر معززین اس اتھلے اور گدلے جوہڑ کے شناور ہیں جو فیض حمید نامی جرنیل سے منسوب ہے۔
دیگر "مقبوضہ ریاستوں " میں ٹمٹماتی حیا نامی روایت کی "وہ بجھتی سی چنگاریاں آخر آخر" شاید ہم چند سال مزید دیکھ سکیں گے۔ سندھ ہائی کورٹ کی 40 نشستوں میں سے صرف 3 پر ضلعی جج ہیں۔ 25 پر بار کونسلیں و چیمبر قابض ہیں۔ 12 خالی نشستوں پر آباد کار حملہ کرنے کو ہیں۔ یوں سندھ میں صرف 3 ریڈ انڈین باقی ہیں۔ یہی حال خیبر کا ہے جہاں 2 ریڈ انڈین باقی ہیں۔ 13 پر بار کونسلیں و چیمبر قابض ہیں۔ بقیہ 15 پر قبضے کے لیے پانی پت کے میدان(جوڈیشل کمیشن) میں بارود کی بہم رسانی جاری ہے۔ بلوچستان میں حیا کی بس رمق سی باقی ہے۔ 14 میں سے 10 پر بار کونسلیں قابض ہیں۔ صرف دو پر معصوم ریڈ انڈین باقی ہیں۔ 4 پر بار کونسلوں کے نئے متوقع آباد کار بارود لیے کھڑے ہیں۔
اب معرکہ پانی پت کا انتظار ہے۔ ٹینڈر داخل کیے جا چکے ہیں۔ محرم راز خالق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بطور تبرک۔ بخاری نے الجامع الصحیح میں روایت کیا ہے: اذا لم تستحی فاصنع ماشئت (جب تم میں سے حیا ہی اٹھ جائے تو پھر جو جی میں آئے کرتا پھر) 15 دسمبر کے ڈان سے مروی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کی 25 خالی نشستوں کے لیے جوڈیشل کمیشن کے معززین نے جو ٹینڈر داخل کیے ان میں چھ سابق ججوں کے صاحبزادگان ہیں. مزید مکروہ تفصیل دہرانے کا مجھ میں تو یارا نہیں، ڈان میں آپ خود دیکھ لیجئے۔ ضلعی عدلیہ پنجاب میں 156 سیشن جج ہیں، یہی اصل عدلیہ ہے جس کے سہارے چیف جسٹس کا عہدہ کھڑا ہوتا ہے۔ چیف کی کرسی کے یہی 156 مضبوط ستون ہیں۔ ان میں سے ہر جج دو تین عشرے ضلعی عدلیہ کی تنگ پگڈنڈی پر اس امید پر رینگتا رہتا ہے کہ کبھی وہ بھی جسٹس کہلانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جگر تھام کر پڑھیے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے جسٹسوں کی 25 خالی آسامیوں کے لیے ایک سیشن جج کا نام تجویز نہیں کیا۔ 21 نام دیے گئے جو سب ان کے ماضی کے ساتھی وکلا ہیں۔
اب یہ سمجھا دیجیے کہ مولوی اپنی مسجد کا موذن اور خادم وغیرہ اپنے ہی مسلک کا رکھے تو برائی کیا ہے۔ مسجد مسلکی اعتبار سے رجسٹرڈ ہوتی ہے۔چندہ دینے والے اسی مسلک کے لوگ ہوتے ہیں۔ جو لوگ چندہ دیتے ہیں انہی کے مسلک کے افراد مسجد میں ملازم رکھے جائیں تو خرابی کیا ہوئی؟ آئین کے تحت ہائی کورٹ کا جج بننے کے لیے سیشن جج ہونا ضروری ہے. بار سے وکیل بھی لیا جا سکتا ہے لیکن اصل عدلیہ ضلعی عدلیہ ہی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس لاہور نے ترقی کے لیے صرف وکلا کے نام دیے تو کیا ہائی کورٹ بار کونسلوں کے چندے سے چلتی ہے؟ ججوں کو تنخواہ ہم سب کے ٹیکسوں سے ملتی ہے۔ تو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے قومی خزانے پر چلنے والے ادارے کے لیے صرف اپنے "ہم مسلک" یعنی وکلا کیوں تجویز کیے؟ کیا یہ عدل ہے؟ یہ بھی بتا دیجئے کہ تمام 21 نام اپنے سابق "ہم مسلک" (یعنی وکلا) ساتھیوں اور مخصوص چیمبروں ہی سے دیے گئے تو کٹ حجت اور متعصب مولوی کو کیوں کہا جاتا ہے؟
میں نے عدالتی افسروں کے ساتھ 24 سال گزارے۔ یہ زمرہ مجھے کبھی نہیں بھایا۔ اسے سول سروس اور مسلح افواج کے افسروں کی طرح خوب تربیت کی ضرورت ہے۔ لیکن ان میں قابل قبول حد تک عادل جج مل جاتے ہیں۔ پنجاب کے نظر انداز کردہ 156 سیشن جج بے چینی اور کرب کے جس حجم کا سامنا کر رہے ہوں گے اس میں ہر کام ہو سکتا ہو گا لیکن نہیں ہو سکتا تو انصاف نہیں ہو سکتا۔ اس ناانصافی کی ذمہ داری ان نو آباد کاروں پر ہے جو فیصلہ ساز ہیں۔ جن کے ناروا اعمال کے سبب اب اعلیٰ عدلیہ میں ضلعی ججوں کا تناسب اتنا بھی باقی نہیں جتنا شمالی امریکہ کی 35 کروڑ آبادی میں ریڈ انڈین کا ہے۔
سیاسی حکومتیں وقتی ضرورت کے تحت آئین میں ترمیم کو امرت دھارا سمجھتی ہیں، امرت دھارا جسے ہر مرض کا علاج کہا جاتا ہے۔ حالانکہ حکومتیں آئین کی روشنی میں روز مرہ قانون سازی پر توجہ کریں تو روشن مستقبل وہ سامنے کھڑا ہمارا منتظر ہے۔ ان حالات میں بہتری کی توقع پارلیمان ہی سے کی جا سکتی ہے۔ آئین کے تحت ہائی کورٹوں میں ضلعی عدلیہ اور بار دونوں سے جج لیے جانا چاہیئیں۔ آئین کا یہ حصہ ذیلی قانون سازی کا تقاضا کرتا ہے، قانون سازی جس میں ان دونوں زمروں کا تناسب بالوضاحت مذکور ہو۔ جب تک یہ قانون سازی نہیں ہوگی، عدلیہ پر قابض نو آباد کار بڑی ڈھٹائی سے اپنے چیمبروں، اپنے بھائی بندوں اور بیٹے بیٹیوں کو یونہی بھرتی کرتے رہیں گے۔ افسردہ، مایوس، بے چین اور اندر سے ٹوٹے ہوئے سیشن جج سب کچھ کریں گے لیکن نہیں کریں گے تو انصاف نہیں کریں گے۔ امید ہے پارلیمان اس طرف فوری توجہ کرے گی۔