سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، پنتالیسویں قسط
محمد صدیق پروفیشنل کرکٹر تو نہیں لیکن کرکٹ کی تاریخ کے استاد اور ناقد رہے ہیں۔کئی سال تک نوائے وقت میں سپورٹس تجزیہ نگار کی حیثیت سے کالم لکھتے رہے ہیں اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے نان آفیشل منیجر رہ چکے ہیں۔وسیم اکرم کے حوالے سے ہماری ان کے ساتھ ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنی یادوں کوتازہ کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ1984ء کی بات ہے ایک روز میرے چھوٹے بھائی کی کمر میں درد شروع ہو گیا۔ اسے ڈاکٹروں کو دکھایا مگر آرام نہ آیا تو میں نے مدثر نذر عمران خان اور اپنے دوسرے کرکٹرز دوستوں سے اس کے علاج کے سلسلے میں راہنمائی مانگی۔انہوں نے مشورہ دیا کہ میں ڈاکٹر طارق سے ملوں۔ڈاکٹر طارق نذیر فزیوتھراپسٹ تھے اور قومی کرکٹ ٹیم میں نئے نئے آئے تھے۔میں ان سے ملنے قذافی اسٹیڈیم گیا بھائی کو ان کے سپرد کیا اور خود شفقت رانا کے ساتھ بیٹھ کرنئے نوجوان کرکٹرز کے ٹرائل دیکھنے لگا۔ معاً نظر وسیم اکرم پر پڑی، اس کا رن اپ ،ایکشن، باؤلنگ سپیڈ اور اس سے بڑھ کر لیفٹ آرم باؤلر کی حیثیت میں ایک مختلف اور خطرناک طریقے سے بال پھینکنے کا انداز دیک کر مجھے اس میں عمران خان کی روح نظر آئی اور میں نے شفقت رانا سے کہا کہ اگر اس لڑکے کو قومی ٹیم میں شامل کرلیا جائے تویہ بہترین باؤلر بن سکتا ہے۔ٹرائلز ختم ہونے کے بعد ہم نے وسیم اکرم کو پاس بلایا اور عمران خان سے اس کی سفارش کی۔اس موقع پر عمران خان نے ایک دلچسپ اور مدلل بات کی اور کہا’’اس کا کھیل ہی اس کی سفارش ہے سڈ‘‘
44ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مجھے یقین ہو گیا کہ ہم نے وسیم اکرم کے اندر جو باؤلر دیکھا ہے عمران خان کی جوہر شناس نظروں سے وہ چھپا نہیں رہ سکا۔ وسیم اکرم خلاف توقع اس پذیرائی پر میرا بے حد ممنون ہوا اور آج بھی اس کا میرے ساتھ تعلق احترام پر مبنی ہے۔جب تک عمران خان کپتان رہے ہیں ان کے ساتھ نان آفشنل ٹورز پر منیجر کی حیثیت میں ساتھ رہتا تھا۔ کینیڈا اور امریکہ میں کرکٹ کا آغاز کرنے والوں میں ہم شامل تھے۔عمران خان کی سرکردگی میں ان ممالک کے علاوہ بنگلہ دیش ،سری لنکا،انڈیا،شارجہ جہاں بھی غیر سرکاری دورے کئے ہیں،ٹیم کے ساتھ بطور منیجر گیا۔ وسیم اکرم اس زمانے میں نیا نیا تھا۔ اسے قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔ عمران خان وسیم اکرم پر بہت فخر کیا کرتے تھے۔کرکٹرز میں صرف وسیم اکرم اور مدثر نذر ہی وہ انسان تھے۔جنہیں عمران خان پسند کرتے اور ان سے مشورہ لینا اور ان کی بات ماننا گوارا کرتے تھے۔وسیم اکرم ہمیشہ سے عمران خان سے بے حد متاثر ہیں۔وہ انہیں اپنا استاد سمجھتے ہیں عمران خان نے جب شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لئے فنڈز ریزنگ شروع کی تووسیم اکرم بلا معاوضہ کرکٹ کھیلتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وسیم اکرم میں عمران جیسی کرکٹ کی خوبیاں پیدا ہوگئیں۔شخصی خوبیاں تو وہ نہ اپنا سکے بہرحال انہوں نے فٹنس، فائٹنگ اور مردم شناسی کے تمام گر عمران سے سیکھے۔وسیم اکرم نے ٹیم کے انتخاب کی تدبیر بھی عمران خان سے سیکھی۔ جس طرح عمران خان ٹیم منتخب کرتے ہوئے اپنی مرضی کرتے تھے۔یہی طریقہ وسیم اکرم نے بھی اختیار کیا۔
عمران خان کی کرکٹ وسیم اکرم میں اس قدر حلول کر گئی کہ دنیائے کرکٹ کے وہ تمام کھلاڑی جو عمران خان سے خوفزدہ تھے۔وہ وسیم اکرم سے بھی خوف کھاتے رہے ہیں۔سری لنکا کے کھلاڑی دلیپ مینڈس تو وسیم اکرم کو عمران ہی کہتے ہیں۔ایک بار انہوں نے ریڈیو سری لنکا کے لئے وسیم اکرم کا انٹرویو لیا تو بار بار انہیں عمران خان کہہ کر پکارتے رہے۔وسیم اکرم انہیں بار بار ٹوکتے کہ یار تم مجھے عمران خان کیوں کہتے ہو، اسی طرح کولمبو میں ایک میچ کے بعد جب وسیم اکرم کو مین آف دی میچ کے ایوارڈ کے لئے دلیپ مینڈس نے انہیں اسٹیج پر بلایا، تو انہوں نے ایک بار پھر وسیم اکرم کو عمران خان کہہ کر پکارا۔ اس موقع پر جب ان سے یہ سوال کیاگیا کہ وہ وسیم اکرم کو عمران خان ہی کیوں کہتے ہیں تو اس پر دلیپ مینڈس نے بڑی یادبات کی اور کہا۔
’’مجھے وسیم کے اندر عمران خان کی روح نظر آتی ہے،ویسے بھی عمران خان کسی ایک انسان کا نام نہیں ہے۔یہ ایک احساس اور کیفیت کا نام ہے۔میں جب وسیم کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان میں عمران خان کا تسلسل نظر آتا ہے‘‘۔
سری کانت جو بھارتی کرکٹ ٹیم کا مایہ ناز آل راؤنڈر ہے،وسیم اکرم سے بہت خوف کھاتا ہے۔عمران خان کی طرح وسیم اکرم نے بھی انڈیا کے لئے دل میں کبھی نرم گوشہ پیدا نہیں کیا۔ اس کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ وہ بھارت کو اس کے گھر میں شکست دے۔انڈین کھلاڑی جس طرح عمران خان سے گراؤنڈ کے اندر اور باہر دونوں جگہ ڈرتے تھے اسی طرح وہ وسیم اکرم سے بھی گھبراتے ہیں۔ایک بار میں نے یہ منظر دیکھا کہ ائرپورٹ پر پاکستانی اور بھارتی ٹیم بیٹھی ہوئی تھی عمران خان نے دوسری فلائٹ سے آنا تھا اور پاکستانی ٹیم ان کا انتظار کررہی تھی۔عمران خان آئے تو انہیں دیکھتے ہی بھارتی ٹیم کے سارے نوجوان کھڑے ہو گئے۔کپل دیو بیٹھے رہے اور انہوں نے اپنے کھلاڑیوں کو سخت الفاظ میں بیٹھنے کے لئے حکم دیا اور کہا’’اوئے نیچے بیٹھو۔عمران خان پاکستانی ٹیم کا کپتان ہے تمہارا نام نہیں‘‘؟
وسیم اکرم کے رعب دبدبہ کا بھی یہ عالم رہا ہے۔اگرچہ اس کے خلاف جوئے کی سازشیں ہوتی رہی ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ مضبوط کپتان تھا۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔