سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، 46ویں قسط
یہ1991ء کی بات ہے بمبئی میں کینسر کے بھارتی مریضوں کے لئے بینیفٹ شوہو رہا تھا۔ ہمارے ساتھ12کھلاڑی تھے ۔عین وقت پر سلیم ملک کو بخار ہو گیا۔ اس پر مجھے شرارتاً فیلڈ میں بلاکر سلی میں کھڑا کر دیا گیا۔ اسوقت سری کانت بیٹنگ کررہا تھا ۔مجھے اس سے پہلے یہ معلوم نہیں تھا کہ سری کانت وسیم اکرم سے ڈرتا ہے۔میں اس وقت بہت حیران ہوا جب وسیم اسے باؤلنگ کرانے آیا تو اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔وہ تھرتھر کانپ رہا تھا۔اس کے ہاتھ اور پاؤں ایسے لرز رہے تھے جیسے وہ رعشہ کا مریض ہو۔
میں اس کے پاس گیا اور شرارتاً کہا’’کانت تمہیں بخار چڑھا ہوا ہے‘‘۔اس نے خشک زبان لبوں پر پھیری،آنکھوں سے خوف جھلک رہا تھا اور وہ خاموش رہا۔میچ کے بعد میں نے وسیم اکرم سے سری کانت کے حوالے سے بات کی تو اس نے قہقہہ لگایا اور بولا۔
پنتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’سڈ یہ مرا بہت بڑا شکار ہے۔میں اگر اسے چار باؤنسر ماروں تو اس کا پیشاب نکل جائے۔جب چاہوں اسے آؤٹ کر دوں،یہ مجھ سے بہت ڈرتا ہے‘‘۔
وسیم اکرم کی کرکٹ میں بہت سی خوبیاں ہیں۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے ایک عرصہ تک خود معلوم نہیں تھاکہ اس کے اندر کیا خوبیاں اور کتنے طوفان پوشیدہ ہیں۔یہ صرف عمران خان جیسا جوہری ہی تھا جس نے اسے تراشا اور اسے پہچان دی۔ میں آپ کو ایک اور دلچسپ قصہ سنا کر اپنی اس بات کوواضح کرتا ہوں۔
1985ء میں وسیم اکرم پہلی بار نیوزی لینڈ کے دورہ پر گیا تو بہت ڈرا سہما ہوا تھا۔ ہوائی جہاز پراس کا پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔وہ بات کرتے ہوئے نروس ہو جاتا تھا۔ عمران خان کا رعب اس پر اس قدر طاری ہوتا تھا کہ بات کرتے ہوئے نظریں نیچے کرکے بات کرتاتھا۔ عمران خان اس کی کیفیت بھانپ جاتے تھے۔ انہوں نے نفسیاتی طور پر اسے اعتماد دیا۔اس کے باوجود وسیم اکرم اس دورے میں ٹینشن میں تھا اور اسے خدشہ تھا کہ اگر وہ اچھی کارکردگی نہ دکا سکا تو عمران خان اسے ٹیم سے نکال دے گا۔
اسی کیفیت اور عالم میں ویلنگٹن ٹیسٹ میں وسیم اکرم کی بوکھلاہٹ دیکھنے کے قابل تھی۔مارٹن کرو نے چوکے لگا کر اس کو اس قدر بے حوصلہ کردیا تھا کہ وہ رونے پر آگیا تھا۔ وہ جب بھی بال کراتا مارٹن کرو اسے چوکا لگا دیتا۔ بال کرانے اور چوکا کھانے کے بعد ترچھی نظروں سے عمران خان کی طرف دیکھتا۔ اسے خدشہ تھا کہ عمران خان اسے گھور رہے ہیں ۔لہٰذا اس نے دوسری بال بھرپور کوشش کرکے گیند کو آف اسٹمپ پر پھینکنا چاہا مگر یہ بال بھی لیگ اسٹمپ پر ہی گری تو مارٹن نے پھر چوکا لگا دیا۔ یقین کریں کہ تیسرا چوکاکھانے کے بعد وسیم اکرم کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور نڈھال قدموں سے باؤلنگ اینڈ کی طرف جانے لگا تو عمران خان اس کی طرف بڑھے۔وسیم سمجھا کہ اب اس کی سرزنش ہو گی۔ مگر جب عمران خان نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ویل ڈن وسیم۔ تم نے مارٹن کرو کی کمزوری بھانپ لی ہے۔اس طرح گیندیں کراؤ۔دو چار گیندوں کے بعد یہ آؤٹ ہو جائیگا۔
جاری ہے۔ سنتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔