رکشہ، مسکہ،چسکا، ڈسکہ اور پہلے سی ای او

   رکشہ، مسکہ،چسکا، ڈسکہ اور پہلے سی ای او
   رکشہ، مسکہ،چسکا، ڈسکہ اور پہلے سی ای او

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  ایک ریٹائرڈ آفیسر شدید دُکھی لہجے میں فرما رہے تھے، ریٹائرڈ آفیسر قوم کی ماں ہوتا ہے جس نے ماں کو ستایا، اس نے رکشہ ہی چلایا۔ لوگ خاموشی سے سنتے رہے مگر رضوان بول اٹھا، جس آفیسر نے رکشے والے کو بھی ستایا، وہ کس قماش کا ہوتا ہے؟۔ریٹائرڈ آفیسر اگر قوم کی ماں ہوتا ہے تو حاضر سروس آفیسر کیا ہوتا ہے؟صاحب کو مسکے کا  چسکا تھا۔ چسکا پورا نہ ہوا تو وہ ڈسکہ چلے گئے۔ایک دن سوشل میڈیا پر ایک نظم سنی۔

جن کا کام ہو ڈسنا

وہ ڈسکے رہتے ہیں 

ڈر گئے اور ساہیوال  چلے آئے۔ کسی کام سے ساہیوال واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز کمپنی کے دفتر جانا ہوا۔چیف ایگزیکٹو آفیسر خود ملے۔ تحمل سے بات سنی۔داد رسی کی۔ وہ خود افسر رہے تھے۔ریٹائرڈمنٹ کے بعد بھلے خود کوقوم کی ماں سمجھتے ہوں، دوران سروس سائل کو سائل ہی سمجھتے تھے،اپنی تو کیا کسی کی بھی اولاد نہیں سمجھتے تھے۔افسر جاہ جلال کے قائل تھے،ان کے اور عوام کے درمیان کئی پردے حا ئل تھے۔عملے کے لوگ رشوت کی طرف مائل تھے۔خوار ہوتے سائل تھے۔اپنے ماضی پر ندامت ہوئی۔سی ای اوصاحب کی عزت دل میں بڑھ گئی۔ پوچھا:-   کہاں کے رہنے والے ہیں؟۔ جواب ملا”ڈسکہ“۔وہ حیران ہوئے، کہنے لگے،آپ اپنے شہر کا افتخار ہیں،وقار ہیں۔ریٹائرڈ افسر کے تاثرات سے وہ لوگ متفق ہیں جو افتخار صاحب کو جانتے ہیں، آپ صوبائی سول سروس کے 20 ویں صدی کے آخری افسروں میں سے ہیں۔ اپنی سروس کا بھی افتخار ہیں۔ایک خاتون جن کے خاندان میں اعلیٰ افسروں کی تعداد گنتی سے ماورا ہے، افسروں کی قسموں پر طویل عرصے سے تحقیق کر رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ افسروں کی بنیادی قسم وہ ہے جو اپنے ادب پر سمجھوتا نہیں کرتی۔ ایک قسم وہ ہے جو ادب پر سمجھوتا نہیں کرتی، بھلے وہ انگریزی ادب ہو یا اردو ادب۔ افسروں کی معدوم ہوتی ہوئی قسم وہ ہے جو عوام اور انسانیت کے ادب پر سمجھوتا نہیں کرتی، افتخار صاحب بھی افسروں کے اسی قبیلے سے ہیں۔ اردو اور انگریزی میں ماسٹر ڈگری رکھتے ہیں۔ ان کی تخصیص انسانیت کی خدمت اور انسانیت کے احترام میں ہے۔  انتہائی خوش اخلاق ہیں۔ مزاح کے شوقین ہیں۔ساہیوال سے اپنے آبائی گھر گئے تو ملازمہ نے ایک چپاتی اور  سالن تناول کرنے کے لئے پیش کیا اور پوچھا، روٹی اور بناؤں؟ جواب ملا، ہاں آدھی چپاتی اور بنا کر لاؤ، ملازمہ ہنستی رہی اور ہمارے افسر کو دلی مسرت حاصل ہوتی رہی۔وہ بتاتے ہیں کہ ان کے آبائی گھر میں سحری کے بعد سونے کارواج نہیں۔ایک دن ایک پڑوسی تشریف لائے اور پوچھنے لگے ایسی کیا بات ہے جو روز آپ کو سونے نہیں دیتی، اتنی اونچی آواز میں قہقہے لگانے پر مجبور کرتی ہے کہ پورا محلہ گونج اٹھتا ہے؟  افتخار صاحب مسکرائے اور راز بتایا، ہم بہن بھائی کوشش کرتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ اکٹھے گزاریں۔ خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ والد صاحب کی خدمت میں سب حاضر ہیں۔  قہقہے تو ہم اس لئے لگاتے ہیں کہ قہقہ لگانا انسان کو جوان بھی رکھتا ہے اور تروتازہ بھی۔ افتخار صاحب سیکریڑیٹ میں کئی اہم محکموں میں بطور سیکشن آفیسر، ڈپٹی سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹری خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔وہ ضلع خانیوال اور ضلع لودھراں میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بھی تعینات رہ چکے ہیں۔ دوران ملازمت وہ جنید اقبال صاحب سے انتہائی متاثر ہوئے۔ ان کی ملازمت کا آغاز تھا تو جناب جنید اقبال صاحب محکمہ خوراک کے صوبائی سیکرٹری تھے۔ ان کو محکمانہ امور پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ خوراک کے بحران پر انہوں نے اتنی کامیابی سے قابو پایا کہ صوبہ بھر میں گندم وافر ہو گئی۔ افتخار صاحب جب سرگودھا ترقیاتی ادارہ کے ڈ ائریکٹر جنرل بنے تو  انہوں نے ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا۔ماتحت عملہ کے جملہ مسائل حل کئے، یہی روش انہوں نے ساہیوال واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز کا پہلا چیف ایگزیٹو آفیسر بن کر برقرار رکھی۔محنت کی اور بھرپور محنت کی۔ کام کے دباؤ کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ چہرے پر مسکراہٹ قائم رہی اور ماتحتوں کا خیال رکھنے کی روایت بھی۔ اولاد کی پرورش کا فریضہ بھی خوب نبھایا۔ایک بیٹی ڈینٹل سرجن ہے تو دوسری ڈاکٹر بن رہی ہے، بڑا بیٹا انجینئر ہے تو چھوٹا بیٹا بھی تعلیمی میدان میں کامیابیاں سمیٹ کر خاندان کا نام روشن کر رہا ہے۔وہ اولاد کی تعلیم و تربیت اپنی کمائی بھی سمجھتے ہیں اور اپنی کامیابی بھی۔ ہر وقت خوش رہنے والے افتخار صاحب کبھی کبھی اپنے دوست اشرف گل ڈسکوی کو یاد کر کے اداس ہو جاتے ہیں۔ جی ہاں و ہی اشرف گل ڈسکوی جو غربت کی وجہ سے اپنا کلام طبع نہ کرواسکا مگر کیسے کیسے قیامت کے شعر کہہ گیا:

؎ خواب سمجھ کر بھولو میری باتوں کو  

اس نے مجھ کو اپنے خط میں لکھا ہے

افتخار صاحب رجائیت پسند ہیں اور پڑھنے لکھنے کے شوقین بھی۔  کہتے ہیں، آج سے ہزاروں سال پہلے دنیا تہذیب و تمدن کے لئے ہڑپہ کی طرف دیکھتی تھی۔ جدید رہائشی کالونیوں میں مہیا کی جانے والی سہولیات ہڑپہ کے باسیوں کو میسر تھیں۔ہڑپہ سے ملنے والے ڈنرسیٹ میں بھی چھ پلیٹیں بڑی اور چھ پلیٹیں چھوٹی ہوتی تھیں۔ آج بھی ہم اسی طرح کے ڈنرسیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ پہلے سی ای او یقین ہے کہ ہم دنیا میں ایک دفعہ پھر پہلے نمبر پر ضرور آئیں گے۔ دنیا ہڑپہ کی تہذیب وتمدن کے وارث ملک پاکستان کی طرف فخر سے دیکھے گی۔ ہم بھی اس یقین میں افتخارصاحب کے ساتھ ہیں۔ باقاعدہ شاعری نہ کرنے والے شاعر افتخار علی کے تین خوبصورت اشعار۔

؎ہر کوئی سنگ بار ہوتا ہے

جب کسی گل سے پیار ہوتا ہے

زندگی بھر نبا ہ کرتا ہے

غم بھی عالیٰ وقار ہوتا ہے

دوسروں کے لئے جو جیتا ہے 

باعث ِافتخار ہوتا ہے

مزید :

رائے -کالم -