سکرپٹ شاندار تھا
26 ویں آئینی ترمیم دونوں ایوانوں سے منظور ہو کر آئین کا حصہ بن گئی۔ اب اس پر کوئی قانونی جنگ شرع ہوتی ہے، وہ بعد کی بات ہے۔ میری نظر میں ترمیم کی شقوں سے لے کر منظور کے طریقہ کار اور تاریخ و وقت کا تعین کرنے کے لئے ایک مضبوط سکرپٹ لکھا گیا۔ اسی مضبوط سکرپٹ کو دیکھتے ہوئے یہ خیال جنم لیتا ہے یہ سیاستدانوں کا نہیں کسی منظم ادارے کا کام ہے۔ ایسا بے جھول سکرپٹ صرف وہی لکھ سکتا ہے جو یہ جانتا ہو واقعات کس ترتیب سے ہیں اور کہاں کہاں سسپنس اور بے یقینی کو ابھارنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ سب سے پہلے کہانی کار نے جس چیز کو پیش نظر رکھا وہ وقت کا تعین تھا۔ آئینی ترمیم کی اس شق سے واضح ہو گیا ہے، جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کرنے کی وضاحت کی گئی ہے۔ 25 اکتوبر سے پہلے یہ آئینی ترمیم اس لئے ضروری تھی کہ پرانے طریقہ کار کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ سینئر ہونے کے ناتے چیف جسٹس نہ بن جائیں۔ اب سب کام تیزی سے ہوں گے۔ صدر مملکت کے دستخط سے یہ آئینی ترمیم جب عملی شکل اختیار کرے گی تو فوری پارلیمینٹ کا بارہ رکنی کمیشن بنایا جائے گا جو 24 اکتوبر سے پہلے تین ججوں کے ناموں میں سے ایک جج کو چیف جسٹس کے لئے منتخب کر کے نام وزیر اعظم کو بھجوائے گا، جس کی صدر مملکت منظوری دیں گے جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں آئینی ترامیم کا بل عجلت میں پیش نہ کیا جاتا تو اتنے اعتراضات نہ اٹھتے، وہ بھول جاتے ہیں کہ 25 اکتوبر کو قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منصور علی شاہ رولز کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن جاتے اگر وہ چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیتے تو یہ شق ویسے ہی غیر موثر ہو جاتی سکرپٹ کا پہلا نکتہ تو یہی تھا، جو کچھ بھی کرنا ہے وہ بیس اکیس اکتوبر تک ہو جانا چاہئے۔ سو یہ ٹاسک مکمل کر لیا گیا تاہم سکرپٹ کا ایک مقصد یہ بھی تھا ان ترامیم کو جمہوری رنگ دیا جائے، اس کے لئے یہ بات ضروری تھی کہ نورا کشی کی تکنیک اختیار کی جائے اور اس کا مرکزی کردار ایسے پہلوان کو دیا جائے جو بھاگ دوڑ سے گھبراتا نہ ہو اور جسے بڑے منصب کے لئے تیار کرنا بھی مقصود ہو۔ یہ کردار سوائے بلاول بھٹو زرداری کے اور کوئی خوبصورتی سے ادا نہیں کر سکتا تھا، نوازشریف یہ کردار ادا نہیں کر سکتے تھے اور کوئی ایسا سیاستدان تھا نہیں جو ایک بڑی پارٹی کی سربراہی بھی رکھتا ہو اور بوقت ضرورت اونچا بولنے اور ٹمپو بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہو۔ سب حیران تھے بلاول بھٹو زرداری کو ان ترامیم سے ایسی دلچسپی کیسے پیدا ہو گئی، بلا شبہ انہیں جو کردار سونپا گیا تھا وہ انہوں نے بڑی کامیابی سے نبھایا، کہیں بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا وہ کسی لکھے گئے سکرپٹ پر چل رہے ہیں وہ یقیناً ایک ہیرو بن کر اس سارے عمل میں اُبھرے۔
کامیاب سکرپٹ وہی ہوتا ہے جس میں ایک ہیرو کے ساتھ ساتھ دبنگ ولن بھی ہو جو ہیرو کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہو جائے۔ تاکہ ایک کشمکش کی صورتحال جنم لے اور یہ تاثر اُبھرے ترامیم منظور کرانا ایک مشکل بلکہ ناممکن کام ہے سکرپٹ میں فطرتی ولن تو تحریک انصاف اور اس کے باقی چیئرمین عمران خان تھے۔ جو ان ترامیم کی مخالفت کر رہے تھے اور ان کا کہنا تھا یہ اسمبلیاں فارم 47 کی پیداوار ہیں انہیں آئین میں ترمیم کا کوئی حق نہیں مگر ظاہر ہے سکرپٹ کے مطابق ایسا ولن تو درکار ہی نہیں تھا جو گنڈاسہ لے کر سامنے کھڑا ہو جائے اور کوئی بات ہی نہ مانے۔ سو اس کردار کے لئے قرعہ فال مولانا فضل الرحمن کے نام نکلا۔ کیا خوبصورت کردار نبھایا ہے۔ مولانا نے۔ ایک بار تو پورے ملک کو اپنی حقیقی اداکاری سے اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیا کہ ان کے ہوتے یہ آئینی ترامیم منظور نہیں ہوں گی۔ میں نے خود دیکھا کہ تحریک انصاف والے جو پہلے مولانا کو مختلف ناموں سے پکارتے تھے، انہیں لمحہ موجود کا سقراط سمجھنے لگے۔ سوشل میڈیا پر ان کا نورانی چہرہ دکھاکر کہتے تھے دیکھا اس وقت ان کے چہرے پر سچائی کا ساتھ دینے کی وجہ سے کتنا نور ہے۔ تحریک انصاف کا وفد بھی ان سے ملاقات کو جاتا تو باہر آکر ان کی مہمان نوازی اور اصولی موقف کے گن گاتا۔ بلکہ جو وفد عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کر کے آیا اس نے بتایا عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کی بہت تعریف کی ہے اور کہا ہے وہ اس وقت غیر آئینی اقدامات کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں اس وقت اس وفد کی خوشی دیدنی تھی جب مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کی ہمراہی میں پریس ٹاک کرتے ہوئے کہا ہم نے آئینی ترمیم کے سانپ میں سے زہر نکال دیا ہے ایک وقت تو ایسا بھی آیا جب سکرپٹ میں ولن کا کردار ہیرو سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا تو وہ عوامی مقبولیت کے لحاظ سے بھی اس کا ڈنکا بجنے لگا۔ یہ وہ وقت تھا جب مولانا فضل الرحمن کا گھر طواف کا مرکز بن گیا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف، نوازشریف، بلاول بھٹو زرداری، تحریک انصاف کے رہنما، اختر مینگل غرض ہر کوئی ان کے درِ نیاز پر حاضری دے رہا تھا۔ سکرپٹ کے مطابق یہ ڈرامے کے سسپنس کا عروج تھا۔ دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں گھر گھر یہ خبریں پل پل دیکھی جا رہی تھیں کہ مولانا نہیں مان رہے۔ وہ چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں چونکہ سکرپٹ لکھنے والوں نے اس بات کو بھی یقینی بنایا تھا کہ آئینی ترامیم کا مسودہ پیش کئے جانے سے پہلے منظر عام پر نہیں آئے گا۔ اس لئے بے چارے عوام کو کچھ معلوم نہیں تھا مولانا کون سی بات مان رہے ہیں اور کون سی نہیں مان رہے۔ جس رات ترامیم کا بل سینٹ میں پیش ہونے والا تھا اس سے کچھ دیر پہلے تک صحافی مولانا فضل الرحمن سے پوچھتے رہے آپ کی کون سی بات مانی گئی ہے مگر انہوں نے کہا چند منٹ بعد سب سامنے آ جائے گا۔
ایک طرف یہ صورتحال تھی تو دوسری طرف ان بندوں کو پارلیمینٹ میں لایا جا رہا تھا جو کئی دنوں سے غائب تھے اور ان کی گمشدگی کا واویلا جاری تھا۔ اسی دوران بلاول بھٹو زرداری کو فاتحانہ انداز میں آتے دکھایا گیا۔ انہوں نے بعض صحافیوں کو طعنے بھی دیئے کہ ان کی مخالفت کے باوجود ترامیم منظور ہونے جا رہی ہیں۔ ڈرامے کا سسپنس سکرپٹ میں اتنا زیادہ رکھا گیا تھا کہ آخر وقت تک یہ یقین سے کہنا مشکل تھا کہ مولانا فضل الرحمن اپنی بات منوائے بغیر بل کی حمایت کریں گے۔ مگر صاحب ہر ڈرامے کا بالآخر ایک ڈراپ سین تو ہوتا ہے 26 ویں ترمیم پیش ہوئی۔ امید تھی کہ اس پر دھواں دار تقریریں ہوں گی مگر نہیں کیونکہ ایسا سکرپٹ میں موجود نہیں تھا۔ پہلے گیلانی صاحب سینٹ میں شق پر شق منظور کراتے رہے، بعد ازاں قومی اسمبلی میں ایاز صادق نے ادھر گنتی، اُدھر منظوری کا سلسلہ جاری رکھا۔ یوں یہ معاملہ جو ایک ماہ سے لٹکا ہوا تھا جب ختم ہونے پر آیا تو چند گھنٹوں میں نمٹ گیا۔ سکرپٹ واقعی مضبوط تھا۔ مقاصد بھی حاصل ہو گئے اور پارلیمینٹ کی بالا دستی کا بھرم بھی رہ گیا۔ اللہ اللہ خیر صلا