بلاول، بلاول اور بلاول!
سوشل میڈیا لوگوں کا شوق ہے تو جنون بھی بن چکا جبکہ تخریب کاری کے لئے بھی اس کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، اس میڈیا کی وجہ سے ہمارے ملک میں تو بھلائی کی نسبت برائی زیادہ پنپی ہے، اس کے ذریعے دشنام طرازی، الزام تراشی اور بے ہودگی بھی حدود پھلانگ چکی اور اب لوگ ناکوں ناک تنگ ہیں، اس کے باوجود لت نہیں جاتی اور بُرا ماننے اور منانے والے لوگ بھی بار بار دیکھنے پر مجبور ہیں، ان تمام تر خرابیوں کے باوجود ہر ہاتھ میں ایک سے ایک قیمتی موبائل نظر آتا ہے، بس میں سفر کرنے کا اتفاق ہو تو 98فیصد مسافروں کے ہاتھ میں موبائل فون نظر آتا ہے،ان میں طلباء کے پاس زیادہ موبائل ہوتے ہیں،سفر کے دوران ہر ایک فون پر مصروف نظرآتا اور منزل آنے پر گڑبڑا کر اترتا ہے کہ فیڈر روٹس کی سپیڈوبسوں میں اناؤنسمنٹ کا نظام نصب ہے، یہ کمپیوٹرائزڈ پروگرام ہے اور منزل کی آمد کا پتہ دیتا ہے، فون سے کھیلنے والے ہربڑا کر اترنے کی جلدی کرتے ہیں تو ایسے ایسے مضحکہ خیز سین بنتے ہیں، ہنسی آ جاتی ہے، اس شوق کے حوالے سے عرض کروں کہ ایک لڑکے کے ہاتھ میں قیمتی فون تھا، اس کے پاؤں میں ٹوٹی ہوئی چپل اور کپڑے بھی میلے اور پرانے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا! بیٹا یہ فون کتنے میں لیا، جواب ملا ہے تو 32ہزار کا مجھے 20ہزار میں مل گیا ہے، میں نے حیرت سے کہا، بہتر تھا کہ تم اور سستا فون لیتے اور دو تین ہزار کی جوتی لے لیتے، اس نے مجھے نظر انداز کیااور فون سے کھیلنے لگ گیا، بہرحال اس کے نقصانات اپنی جگہ لیکن اب یہ مواصلات کا بہت بڑا ذریعہ ہے، جو غلط استعمال کے قائل نہیں، ان کے لئے تفریح کے علاوہ کاروبار اور رشتوں سے منسلک رہنے کا ذریعہ بھی ہے، ابھی تک کوئی سروے تو نہیں ہوا، لیکن مجھے یقین ہے کہ اب بھی اس کا مثبت استعمال کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔
مجھے یہ خیال ایک ہی فرد کے حوالے سے دو مختلف پوسٹیں دیکھنے سے آیا، ایک پوسٹ کسی جیالے کی ہے جو ایک پرانی ویڈیو ہے، اس میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اپنے تینوں بچوں کے ساتھ کھیل رہی ہیں، یہ تینوں اتنے چھوٹے تھے کہ آصفہ، محترمہ کی گود میں ہے اور بلاول کے ساتھ بختاور والدہ کے سوالات کا جواب بھی دے رہی اور ان کے اردگرد بھی گھوم رہے ہیں، اس ویڈیو سے مجھے محترمہ سے ہونے والی گفتگو یاد آ گئی، جو کئی ایک بار ہوئی ۔ محترمہ نے بڑے فخر سے کہا کہ یہ درست کہ بچوں کے لئے گورنس بھی ہے لیکن میں خود ان کی دیکھ بھال کرتی اور ان کو ٹیوشن بھی پڑھاتی ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی تربیت بھی کرتی رہتی ہوں۔بی بی کی اسی محنت کی وجہ سے تینوں بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بلاول بھٹو نے تو اس ادارے سے اچھے نمبروں میں گریجوایشن کی جہاں ان کی والدہ نے سٹوڈنٹس یونین کی صدارت کا مقابلہ بھی جیتا تھا، یہ آکسفرڈ یونیورسٹی برطانیہ ہے، ایک اور پوسٹ بلاول کے انکل (بیش) بشیر ریاض نے بھی لگائی ہے، جو بلاول کی ایک خوبصورت سی نوجوان گڑیا سی لڑکی کے ساتھ ہے اور اس لڑکی کے بلاول کے توصیفی کلمات بھی ہیں، میں نے بہت غور سے اس کو دیکھا،دونوں بہنوں میں سے تو کوئی نہیں، یہ گڑیا جیسی لڑکی شاید بلاول کی دوست ہو، جس کے ساتھ اس کی شادی ہونا ہو، بہرحال یہ انکل بیش ہی بہتر جانتے ہیں۔
میں حالیہ آئینی ترامیم والی کشمکش کے دوران بلاول کی مصروفیات دیکھ کر اس کے بارے میں لکھنا چاہتا تھا لیکن تاخیر ہوتی چلی گئی،آج ٹی وی خبروں سے معلوم ہوا کہ بلاول 36برس کے ہو گئے اور ان کی سالگرہ منائی گئی۔ یوں احساس ہوا کہ شاید دونوں پوسٹیں یہ جان کر کی گئی ہوں کہ بلاول کی سالگرہ ہے تاہم انکل بیش کی پوسٹ والی تصویر سے تو احساس ہوتا ہے کہ وہ شاید بلاول کو شادی کرلینے کی ترغیب دے رہے ہیں، یوں بھی وہ 36برس کے ہو گئے اور ان کی شادی والی بہترین عمر جو 25سے 28سال ہوتی ہے، بیت گئی ہے، اب تو لوگ سوال کرتے ہیں کہ بلاول شادی کب کریں گے کہ ان کی عمر گزرتی جا رہی ہے۔ بلاول نے اپنی شادی کے بارے میں سوال پر کہا تھا کہ ہو جائے گی،جب وقت آئے گا، جب پسند کا ذکر آیا تو انہوں نے جواب دیا کہ بہنوں کی پسند اور خاندان کی مرضی سے ہوگی۔ کب ہو گی، اس کا جواب نہ دیا اور اب تو جیالوں سمیت انکل بیش نے بھی تائید کر دی ہے اس لئے اب تو بلاول کو باقاعدہ ہاں کر دینا چاہیے کہ ”عمریا بیتی جاوے“۔
یہ ذکر تو سوشل میڈیا کے حوالے سے آ گیا ورنہ بلاول بھٹو کی آئینی ترامیم کے حوالے سے سرگرمیوں کو دیکھ کر کالم کا خیال آیا تھا کہ شاید کچھ حضرات کی خواہش کااحترام کرلیا گیا اور بلاول کو سیاست کرنے کی آزادی مل گئی کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو منانے کے لئے جو ملاقاتیں کیں وہ یادگار ثابت ہوئیں، ایک مرحلے پر مولانا مان گئے تو بلاول نے کہا تھا، مولانا فضل الرحمن اور پیپلزپارٹی نے باہمی مل کر قانون سازی میں حصہ لیا ہوا ہے اور اب بھی ہم باہمی طور پر ترامیم لائیں گے۔بلاول کی یہ یقین دہانی اس وقت ہوا ہو گئی، جب مولانا نے پہلے تو واضح طور پر آئینی ترامیم کے مسودے کومسترد کر دیا اور پھر مشترکہ قانون سازی والی آس یہ کہہ کر توڑ دی کہ بلاول کے پاس مسودہ اصلی تھا اور جو مسودہ مجھے دیا گیا وہ مختلف تھا، اب مولانا نے بھی عوام اور پارلیمان کی عزت اور توقیر کا حوالہ دے کر آئینی ترامیم مسترد کر دی ہیں، یوں حکومت کو بھی یہ آس چھوڑ کر ازخود کارروائی کرنا پڑی ہے اور اس کے مناظر سامنے آ رہے ہیں، جبکہ بلاول کا کہنا ہے کہ مولانا کو راضی کرنے کی کوشش اب بھی جاری رہے گی اور ان کے بغیر بھی قانون سازی کے مراحل طے کئے جائیں گے چنانچہ اب حکومت کی طرف سے آرڈیننس کے ذریعے ترمیم لا کر ووٹوں کو غیر موثر کیا گیا ہے، جبکہ سپیکر کی طرف سے ایوان سے منظور ترمیمی قانون کے حوالے سے چیئرمین الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کے حوالے سے جانا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے ذریعے ہی سہی، مولانا کی مجبوری کو آزاد ووٹوں کے ذریعے موخر اور مسترد کرنے والی حکمت عملی کو غیر موثر کیا گیا ہے اور بلاول بھی ساتھ ہیں۔
بلاول کو آتے جاتے اور سرگرم دیکھ کر جیالے خوش اور میں مطمئن ہوں کہ بلاول نے اپنے بڑھتے ہوئے وزن کی طرف توجہ دی اور اب وہ سمارٹ ہیں اور آج کل شلوار قمیض کی بجائے پتلون کورٹ میں دکھائی دیئے اور یہ احساس بھی ہوا کہ انہوں نے نہ صرف اپناوزن کم کیا بلکہ بڑھتے ہوئے جسم کو بھی کنٹرول کیا ان کا پیٹ اور کمر بھی درست نظر آئے، وزن زیادہ ہونے اورجسم کے پھیلاؤ کی وجہ آرام طلبی اور غذائیت والی غذا کھانے کا نتیجہ تھاکہ شلوار قمیض کا یہ نقصان تو لکھا پڑھا ہے کہ بڑھتے پیٹ، کمر اور جسمانی طور پر پتہ نہیں چلتا کہ ناڑا ساتھ ساتھ باندھا جاتا ہے۔ اب وہ پتلون پہنتے ہیں جو کمر کے ناپ کی وجہ سے ڈومور والی بات ہے، اندازہ ہو جاتا ہے کہ کمر بڑی یا وہیں کی وہیں ہے، بہرحال یہ احساس بھی ہوا کہ بلاول کو سیاست کرنے کی کھلی آزادی دی گئی یا پھر انہوں نے زبردستی کرنے کی ٹھان لی ہے۔