”گوری، کتے اور غوری“
میرا دوست غوری کچھ عرصہ پہلے انگلینڈ گیا۔واپسی پر میں نے حال واحوال پوچھا تو کہنے لگا کہ ”حضرت بلھے شاہ کی عظمت کا صحیح پتہ وہاں جاکر لگاہے۔ میں تووہاں جا کر حضرت بلھے شاہ کا مرید ہوگیاہوں، بس میرے قیام انگلستان کی یہی رُودادہے“ مجھے اُس کی باتوں کی بالکل سمجھ نہ آئی۔ میں نے پوچھا کہ اُس نے وہاں تصوف سے متعلقہ کسی کورس میں داخلہ تو نہیں لے لیا تھا، حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ غوری تو سر تا پا ایک کاروباری آدمی ہے۔ میرے بارہا استفسار پراُس نے بتایا کہ کتوں کے ساتھ میموں کا سلوک دیکھ کر اُسے بلھے شاہ کے اس مصرعے کی سمجھ آ گئی۔ ”کتے تھتوں اُتے“۔غوری مزید کہنے لگا کہ وہ لوگ بالکل غلط کہتے ہیں جویہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کتوں جیسی زندگی گزاررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کتے اُن سے بہت بہتر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔غوری کہنے لگا کہ میرا تو وہاں خواب ہی رہا کہ ”زندگی اُن جیسی ہوجائے“۔اگر کتوں کو ہمارے جیسی زندگی گزارنی پڑے تو اُن کو ”آٹے،دال کا بھاؤ پتہ لگ جائے“۔کتے اور انسان کاتعلق بہت پُرانا ہے۔ اس کی ابتداء کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔ انسان کی طبیعت کا روایتی تضاد کتے کے ساتھ اُس کے تعلق میں بھی نمایا ں ہے۔کتا اگر وفا کی علامت ہے،تو ایک گالی بھی ہے۔ ایک افسر اپنے ماتحت سے بہت نالاں تھے انہوں نے اپنے ماتحت کی سالانہ خفیہ رپورٹ میں لکھاکہ ”اُس میں وفاداری کے سوا کتے کی تمام خصلتیں بدرجہ اتم موجود ہیں“۔ مارک ٹوئن لکھتا ہے کہ بچپن میں وہ لوگ اتنے غریب تھے کہ کتا بھی نہیں رکھ سکتے تھے اور اُن کو بھونکنا بھی خود پڑتا تھا۔ہمارے ہاں جب کوئی غریب ہو تو کتے خود بخود اُس کے گھرکے باہر آجاتے ہیں اور بھونک بھونک کراُس کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں۔ عقلمند بہت پہلے یہ مشورہ دے گئے ہیں کہ کتے کاکیا پتہ، کب وہ بھونکنا بند کردے اور کاٹنا شروع کردے۔ اس لئے اپنی بچت بندے کو خود کرنی چاہئے۔ویسے بھی دنیا کے بارے میں ایک شاعر کاتجزیہ ہے کہ یہاں بعض اوقات ”پتھر باندھ دیئے جاتے ہیں اور کتے آزاد کردیئے جاتے ہیں“۔ جوکتے بھونکنے کے عادی ہوجائیں وہ ایک دن کاٹنابھی سیکھ ہی لیتے ہیں۔ حالات کے کتے کے نرغے میں آیاغریب بیچارہ توبول بھی نہیں سکتا۔ویسے بھی غریبوں کویہ دانشمندانہ نصیحت یاد ہے کہ گفتگو چاندی توخاموشی سوناہے۔ مہنگائی کے اس دور میں ہمارے ہاں، سونے کا جو ریٹ ہو چکا ہے،غریب کا واحد سونا اُس کی خاموشی ہی ہو سکتی ہے۔ پہلے ہمارے ہاں کتوں کے بھونکنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا،مگر اب حالات بدل رہے ہیں۔پچھلے دنوں ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک کتا یورپ میں رہ کر بہت بور ہوا اور واپس پاکستان آ گیا۔ واپسی کی وجہ اُس نے یہ بتائی کہ یہاں جیسی بھونکنے کی۔آزادی ہے، دنیا میں اورکہیں نہیں ہے۔ ہماری نظم ونثر،دونوں میں کتے کے مقام کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ پطرس بخاری کے مضمون ”کتے“ کے بغیراُردو نثر کی تاریخ نامکمل ہے تو ہماری شاعری میں بھی بابابلھے شاہ کی نظم ”کتے تھتھوں اُتے“ لافانی ہوچکی ہے۔ بہت سے صوفیائے کرام اپنے ملفوضات میں نفس کو کتے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ انتظارحسین کے افسانے اس بابت خاصے کی چیز ہیں۔میرا خیال ہے کہ انسان اگر اپنے نفس کو قابو کر لے تو مسجودملائک ہے اور اگر نفس کے قابو آجائے پھرسچ وہی ہے جوبلھے شاہ نے بتایا ہے ”کتے تھتھوں اُتے“۔کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے ہاں جہاں کتا وفاداری کی علامت تھا وہاں لالچ کے لئے استعارہ بھی تھا۔ہماری کئی نسلوں کا بچپن ”لالچ برُ ی بلا ہے“ والے کتے کوکوستے گذرا۔اب انسان کو پتہ لگ چکا ہے کہ کائنات میں سب سے لالچی مخلوق وہ خود ہے اور کتا بیچارہ تو اس معاملے میں کوئی اوقات ہی نہیں رکھتا۔کتے کے ساتھ ناروا سلوک میں مشرق اور مغرب دونوں کانام لیاجاسکتا ہے ہمارے ہاں لفظ ”کتا“ گالی ہے تو اُن کے ہاں بھی لفظ ”کتیا“ بدترین گالی ہے۔کتوں کے ساتھ اپنی محبت کے باوجود ابھی بھی اس لفظ کو وہاں بہت بُرا سمجھا جاتا ہے۔پطرس بخاری ہمیں بتاگئے ہیں کہ ”انسانوں کی طرح کتوں کی بھی بہت سی قسمیں ہیں،مگر ”شکاری کتا“ اور ”شکاری انسان“ ہر دور میں فائدہ میں رہے ہیں۔ اُن کامقام ومرتبہ دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ طاقت ہی اصل کائناتی سچائی ہے اور طاقت ور ہردور میں سراہا جاتا ہے، جس کے پاس لاٹھی ہو کوئی نہ کوئی بھینس اُس کے ہاتھ لگ ہی جاتی ہے۔ اصل چیزلاٹھی ہے۔ کتا انسان کا بہت دیرینہ ساتھی ہے۔سماجیات کے ماہرین ہی اس بات پر روشنی ڈال سکتے ہیں کہ کتے نے انسان کوزیادہ سبق سیکھائے ہیں یاانسان نے کتوں پر زیادہ اثرات مرتب کیئے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں۔اگر کسی کمزور لمحے میں انسان ”کتاپن“ دیکھانے پر اُتر آتا ہے تو تاریخ میں ایسے کتوں کا ذکر بھی بارہا ملتا ہے، جنہوں نے انسانیت کاشاندارمظاہرہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آج بھی اُن کی انسانیت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔وہ لوک کہانیوں کاحصہ بن چکے ہیں۔انسان کی معراج یہی ہے کہ وہ صوفیائے کرام کے طرزِ زندگی سے اثرلے۔نفس کے کتے پرقابو پاکر اپنی زندگی کا ہر لمحہ عاجزی اورانکساری کے ساتھ گزارے،جولوگ اپنے نفس کے غلام بن جاتے ہیں دنیاہمیشہ اُن کے کتے پن کی مثال دیتی ہے۔انسان نفس اور کتے کے بغیر مکمل نہیں ہے۔ نفس کے کتے پرقابوپائے بغیر وہ اشرف المخوقات نہیں،بلکہ جمادات سے بھی بدتر ہے۔دعا ہے کہ تمام انسان، انسان ہی رہیں کیونکہ یہ فرشتہ ہونے سے بہتر ہے اگرچہ اس میں محنت زیادہ لگتی ہے، مگرہم محنت نہیں کریں گے توکون کرے گا؟