امیرالمومنین سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کی شجاعت وشہادت 

امیرالمومنین سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کی ...
امیرالمومنین سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کی شجاعت وشہادت 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کی ایک کنیت اپنے بڑے بیٹے سیدنا حسن مجتبٰیؓ کے نام سے ابوالحسن (مجتبٰی ) تھی اور دوسری کنیت ابوتراب تھی ۔
’’ابوتراب‘‘کنیت کی وجہ :حضور نبی اکرم ﷺ ایک مرتبہ اپنی لختِ جگر سیدہ حضرت فاطمۃالزہراءؓ کے گھر تشریف لائے اور  سیّدنا  حضرت علی المرتضیٰ  کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم  کے متعلق دریافت فرمایا ،معلوم ہوا کہ آپؓ مسجد تشریف لے گئے ہیں-حضور نبی کریم ﷺ  سیّدنا  حضرت علی المرتضیٰؓ  کے پاس تشریف لائے تواس وقت آپؓ کےبدن مبارک پر مٹی لگی ہوئی تھی تو حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’اے ابو تراب کھڑے ہوجائیے ، اے ابو تراب کھڑے ہوجائیے‘‘-
سیّدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کے 3 لقب بہت مشہور ہیں اسداللہ ،حیدر اور مرتضیٰ ۔

نسب نامہ یوں بیان کیا گیا ہے (سیدنا ) علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرّہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر۔

حضرت سہل بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے موقع پر حضور نبی کریم  ﷺ نے  فرمایا’’ میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالی فتح عنایت فرمائیں گے۔‘‘ 
راوی کہتا ہےکہ صحابہ کرامؓ رات بھر اسی سوچ بچار میں رہے کہ دیکھیں جھنڈا کسے ملتا ہے ؟ صبح ہوئی تو حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،ہر ایک صحابی کی خواہش تھی کہ جھنڈا اسے دیا جائے لیکن آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ علی بن ابی طالبؓ  کہاں ہیں ؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ،یا رسول اللہﷺ !اُن کی آنکھوں میں تکلیف ہے ۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا’’ انہیں پیغام بھیج کر میرے پاس بلاؤ ۔‘‘جب حضرت علیؓ آئے تو آپ ﷺ نے انکی آنکھوں لعاب دہن ڈالا اور  دعا فرمائی چنانچہ اس سے انہیں ایسی شفا ملی کہ گویا کوئی تکلیف تھی ہی نہیں پھر آپ ﷺ نے سیّدنا علی المرتضیٰ  کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کو جھنڈا دیا، تو سیدنا علی المرتضی  کَرَّمَ اللہُ  وَجہَہُ الْکریم نے عرض کی، اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں ان سے جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ سارے ہم جیسے ( مسلمان ) ہو جائیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ ابھی یوں ہی چلتے رہو یہاں تک کہ انُکے میدان میں اترو تو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ کے ان پر کیا حقوق( واجب ) ہیں ؟اللہ کی قسم !اگر تمہاری کوشش سے کسی ایک شخص کو بھی اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ ‘‘
حضرت سلمہ بن اکوعؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰ  کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم خیبر کے موقع پر آشوبِ چشم میں مبتلا تھےپھر جب وہ رات آئی جس کی صبح خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ کل میں ایک ایسے شخص کو جھنڈا دونگا‘‘ یا (فرمایا) ’’کل وہ شخص جھنڈا لے گا جس سے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کو محبت ہے، وہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں فتح نصیب کرے گا۔‘‘ پھر سیدنا علی المرتضی  کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم آ گئے ۔پھر اللہ تعالی نے انکے ہاتھوں (خیبر کی) فتح عنایت فرمائی۔ ( بخاری شریف ) 
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ میں ( کل ) ضرور بالضرور یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائے گا جب دوسرا دن ہوا تو آپﷺ نے سیدنا علی المرتضیٰ  کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کو بلایا اور جھنڈا انہیں دیتے ہوئے فرمایا’’ ( ان سے پوری دل جمی سے ) لڑائی کرو اور ( لڑائی سے) توجہ نہیں ہٹانی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں فتح نصیب فرمائیں۔‘‘ پھر سیدنا حضرت علی المرتضیٰ  کَرّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ انہوں نے آپﷺ  سے پوچھا’’ اے اللہ کے رسول ﷺ! میں کس چیز پر قتال کروں (یعنی کب تک ان سے لڑوں ؟)‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ  کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمدﷺ اللہ  کے رسول ہیں جب وہ یہ کام کرنے لگیں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال محفوظ کر لیے ، سوائے اسلام کے کسی حق کے اور ( پوشیدہ معاملات میں) ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہو گا ۔‘‘

حضرت سلمہ بن اکوعؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے دن رسول اللہ ﷺ نے جھنڈا سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کو عطا فرمایا تو مرحب یہودی میدان میں نکلا اور کہنے لگا کہ سارا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں پوری طرح ہتھیار بند ، بہادر ،آزمودہ کار۔۔۔۔تو مقابلے میں سیدنا حضرت علی المرتضی  کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نکلے اور اسے یوں للکارنے لگے’’ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے کچھار کے شیر کی طرح ہوں ، جسے دیکھنے سے لرزہ طاری ہو جاتا ہے میں انہیں( اپنے دشمنوں کو) ایک صاع( برابر حملے) کے بدلے میں پورا درخت ماپ کر دیتا ہوں ( یعنی میں اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا ہوں )۔‘‘

پھر سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ  نے مرحب کے سر پر وار کیا اور اسے قتل کر دیا اس کے بعد ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے ( خیبر کی ) فتح عطا فرمائی۔( مسلم شریف کتاب الجہاد )

امیرالمومنین سیدنا علی المرتضی  کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے فرمایا ’’قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ پھاڑا اور جس نے انسان کو پیدا کیا نبی اُمّی ﷺ نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے نفرت کرے گا۔‘‘ ( مسلم شریف کتاب الایمان ) 
حضرت  ابوطفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا  حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے فرمایا ’’مجھ سے قرآن مجید کے متعلق پوچھ لو یقیناً میں تمام قرآنی آیات کے متعلق جانتا ہوں کہ کونسی آیت رات کے وقت نازل ہوئی اور کونسی آیات دن کے وقت ،کون سی عام جگہ میں اور کونسی پہاڑ پر نازل ہوئی۔‘‘ ( تاریخ دمشق) 

حضور نبی کریم ﷺ نے سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کو شہادت کی پیش گوئی فرمائی تھی چنانچہ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺحرا پہاڑ پر تھے آپﷺ  کیساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت طلحہؓ اور  حضرت زبیرؓ بھی تھے تو اچانک وہ پہاڑ ہلنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ ٹھہر جا! تیرے اوپر (اس وقت ) صرف نبیﷺ ہے یا صدیق ہے یا شھید ہے۔ ‘‘(مسلم کتاب فضائل الصحابہؓ )
 حضرت ابوطفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ نے جب لوگوں کو اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی تو بدبخت عبدالرحمن بن ملجم المرادی بھی ( بیعت کیلئے) حاضر ہوا ، تو آپؓ نے اسے 2مرتبہ واپس کیا وہ پھر آیا تو آپؓ نے فرمایا۔ یہ بدبخت میرے بارے میں کس چیز کا منتظر ہے ، یہ ضرور بالضرور اس سے رنگی جائے گی (یعنی سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ  کی ڈاڑھی مبارک سر مبارک کے خون سے رنگی جائے گی) پھر آپؓ نے بطور تمثیل یہ شعر پڑھا ، ترجمہ ’’موت کے استقبال کی تیاری کر لو ،وہ تم تک پہنچنے والی ہے موت سے نہ گھبراؤ جب اس نے تمہارے صحن میں قدم رکھ دیا ہے ۔‘‘( الطبقات الکُبریٰ )

ابوسنان الدؤلیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کے آخری ایام میں انکی عیادت کیلئے خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا !یاامیرالمومنینؓ! ہم آپؓ کی اس تکلیف کی وجہ سے ( آپؓ کے بارے میں ) ڈر رہے ہیں تو امیرالمومنین سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ نے فرمایا’’ لیکن اللہ کی قسم ! مجھے اس ( بیماری یا اس تکلیف) سے اپنے بارے میں کوئی ڈر نہیں ہے اسلئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے جو صادق ومصدوق ہیں وہ فرما رہے تھے "عنقریب تمہیں تلوار کی ایک ضرب یہاں لگائی جائے گی اور ایک یہاں " اس دوران آپؓ نے اپنی دونوں کنپٹیوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا اس جگہ سے بہنے والا خون تمہاری ڈاڑھی کو رنگ دے گا اور حملہ کرنے والا اسی طرح سب سے بڑا بدبخت ہو گا جس طرح اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والا قوم ثمود میں سے سب سے بڑا بدبخت تھا ۔‘‘
ثقہ اور متقن تابعی ابو عمرو عامر بن شراحیل الشعبی رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا  حضرت علی المرتضیٰؓ نماز فجر کیلئے آئے تو ملعون عبدالرحمن بن ملجم المرادی اور شبیب الاشجعی ان پر وار کرنے کیلئے چھپ کر بیٹھے تھے شبیب نے ان پر تلوار کا وار گیا تو وہ خطا ہو گیا اور تلوار دیوار پر جا لگی پھر کندہ کے دروازوں کیطرف اس کا محاصرہ کر لیا گیا اور لوگ کہنے لگے کہ تلوار والے کو پکڑو تو اس نے پکڑے جانے کے ڈر سے تلوار پھینک دی اور لوگوں میں گھس گیا۔ جبکہ ابن ملجم بدبخت نے آپؓ کے سر پر تلوار کا وار کیا پھر اسے باب الفیل کیطرف گھیر لیا گیا  اور پکڑ کر امیرالمومنینؓ کے سامنے پیش کیا گیا تو سیدنا  حضرت علیؓ فرمایا’’ اگر میں شھید ہو جاؤں تو تم چاہو تو اسے قتل کر دینا،چاہو تو چھوڑ دینا اور اگر میں صحتیاب ہو جاؤں تو پھر قصاص ہو گا ۔‘‘
امیر المومنین سیدنا  حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ  وَجہَہُ الْکریم مسنونہ عمر 63 سال کی عمر مبارک میں 40 ہجری 21 رمضان المبارک کو کوفہ کی جامع مسجد  میں شھید ہو کر رفیق اعلیٰ سے جا ملے 
امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰؓ کو آپؓ کے بڑے بیٹے سیدنا حضرت  امام حسن مجتبٰیؓ ، سیدنا حضرت امام حسینؓ  اور سیدنا عبداللہ ابن جعفرؓ نے غسل دیا۔  سیدنا  امام حسن مجتبٰیؓ نے نماز جنازہ جامع مسجد کوفہ میں پڑھائی ۔حضرت سیدنا امام حسن مجتبٰیؓ اپنے والد گرامی امیرالمومنین امیر المتقین سیدنا  حضرت علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے بارے میں فرماتے تھے کہ’’ انہوں نے لوگوں کو صراط مستقیم دکھایا اور ان کیلئے دین کو قائم اور سیدھا کیا جب وہ ٹیڑھا ہوا ۔‘‘

امیر المومنین سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے فضائل و کمالات قرآنی آیات و احادیث صحیحہ میں مذکوہ ہیں جنکا حصار اور شمار کرنا مشکل امر ہے تاہم چند ایک فضائل اجمالاً ذکر کیے جاتے ہیں ۔
1-نبی کریم ﷺکیساتھ تمام صحابہ کرامؓ کا اپنی اپنی نوعیت کی صورت میں جس طرح تعلق، رابطہ اور عقیدت مستحکم ہے اسی طرح سیدنا علی المرتضیٰؓ  کا نسبی تعلق اور خاندانی انتساب قائم ہے 

2-آپؓ کو حضور نبی کریم ﷺ کے قبیلہ مقدس کی سربرآوردہ شخصیت ہونے کیساتھ ساتھ آپ ﷺ کے داماد ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ 

3-سیدنا علیؓ کو آنحضرت ﷺ کے سایہ شفقت میں ابتدا ہی سے تربیت پانے کا شرف حاصل ہے 

4-ہجرت نبوی ﷺکے موقع پر سیدالکونین ﷺ کے بستر مبارک پر آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل میں استراحت کرنے کی فضیلت آپؓ کو نصیب ہوئی اور نبی کریم ﷺ کے ودائع اورامانات کو متعلقہ لوگوں تک پہنچانے کی سعادت بھی صرف  آپؓ کوحاصل ہوئی۔ 

5-اسلام میں ہجرت مدینہ کی عظیم فضیلت سے آپؓ کا مشرف ہونا مسلمات میں سے ہے اور آپؓ مہاجرینِ کاملین سے ہیں 

6-بدر واحد سمیت غزوات میں آپؓ ے شجاعانہ کارنامے مشہور ہیں خصوصاً غزوہ خیبر میں آخری قلعہ قموص کے فتح ہونے کی بشارت  مشہور ومعروف ہے۔ 

7-آنحضرت ﷺ سے بیعت کے مختلف مواقع ( بیعت رضوان) میں آپؓ کا شامل  ہونا روز روشن کی طرح واضح ہے 

8-سیدنا  حضرت علیؓ کا قرآن مجید کے کاتب وحی ہونا اور دیگر کئی مکاتیب ووثائق کا محرر ہونا امر مسلم ہے 

9-اسلام میں عشرہ مبشرہ حضرات رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مقام دیگر افراد امت سے بہت رفیع ہے ان میں سیدنا حضرت علیؓ شریک و شامل ہیں اور زبان نبوت ﷺ کے ذریعے انکے جنت کی بشارت حاصل ہے۔ 

10-  (9) نو ہجری میں جب آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو جب امیرِ حج بنا کر روانہ فرمایا تو  حضرت علیؓ کو سورت برات( سورۃ توبہ) کی بعض آیات کی تبلیغ کے منصب پر فرمایا اور آپؓ نے مکہ مکرمہ جا کر اس فریضہ کا حق ادا کیا۔ 

11-سیدنا  حضرت علی المرتضیٰؓ کو آنحضرت ﷺ کے آخری اوقات میں تیمارداری کے فرائض سرانجام دینے کا شرف حاصل ہوا 

امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم کی شان ومنقبت کو بیان کرتے ہوئے امام احمد بن حنبلؒ نے کیا خوب فرمایا خلافت نے سیدنا حضرت علیؓ کو زینت نہیں بخشی بلکہ سیدنا  حضرت علیؓ نے خلافت کو زینت بخشی ہے۔ (تاریخ بغداد)۔

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

  ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -