امام غزالی
امام غزالی کا اصل نام ابوحمید غزالی ہے اور جنھیں مغرب کے مفکرین الیگزل Algozel کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ بہت بڑے مسلم مفکر گزرے ہیں۔ امام غزالی 1054ء میں خراسان کے چھوٹے سے شہر طوس میں پیدا ہوئے، ان کے والد سُوت کا کاروبار کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ان کا نام غزالی پڑگیا، غزال عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں سُوت بنانے والا، علامہ سمعیانی کے اس خیال سے کوئی بھی اتفاق نہیں کرتا کہ امام غزالی طوس کے ایک گاؤں غزال سے تعلق رکھتے تھے۔
امام غزالی کے عہد میں تعلیم عام تھی، کوئی فرد بھی تعلیم سے بے بہرہ نہ تھا حتیٰ کہ ایک عام آدمی بھی اعلیٰ تعلیم بآسانی حاصل کرسکتا تھا اور اسے ہر طرح کی آسائشیں میسر تھیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سے نامور مسلم مفکرین معاشرے کے عام طبقے سے تعلق رکھتے تھے جن میں امام ابوحنیفہؒ کا نام قابلِ ذکر ہے۔ امام ابوحنیفہؒ معمولی کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ شمس الائمہ مٹھائی بیچتے تھے۔ امام ابوجعفر کفن دوز تھے اور علامہ کافل مورازی ایک لوہار تھے۔ شومئی قسمت سے امام غزالی کے والد ایک ان پڑھ آدمی تھے، انہوں نے بسترِ مرگ پر اپنے قریبی دوست کو یہ تلقین کی کہ وہ ان کے دو لڑکوں جن میں امام غزالی بھی شامل تھے اپنی نگرانی میں رکھے اور انہیں اچھی سے اچھی تعلیم دلوائے۔ انہوں نے اپنی تمام پونجی ان کے سپرد کردی تاکہ وہ ان کی کفالت کر سکے، کچھ عرصہ تک یہ دونوں اچھی تعلیم حاصل کرتے رہے لیکن یہ پونجی جلد ہی ختم ہوگئی اور بادلِ نخواستہ انہیں ان لڑکوں کو کہنا پڑا کہ وہ اپنا روزگار تلاش کریں۔ اس دور میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی کوئی کمی نہ تھی۔ نجی تعلیمی اداروں میں اس عہد کے علماء فضلاء درس دیا کرتے تھے اور ان اداروں میں غریب گھرانوں کے بچے بھی بآسانی تعلیم حاصل کر سکتے تھے یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند نوجوانوں کو ہر طرح کی سہولتیں میسر تھیں، چنانچہ امام غزالی نے ان سہولتوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک مقامی استاد احمد بن محمدازکانی سے حاصل کی، ابتدائی تعلیم ختم کرنے کے بعد وہ جرجان کی طرف روانہ ہوئے جہاں پر انہوں نے امام صاحب کی تقریریں قلم بند کیں۔ اس زمانے میں ان تقریروں کو تعلیقات کا نام دیا جاتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جرجان سے پھر اپنے وطن واپس آئے، جب وطن واپس آرہے تھے تو راستے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے امام غزالی کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔ جس قافلہ میں امام صاحب تھے اس پر ڈاکوؤں نے حملہ کردیا اور امام صاحب کا سب سازوسامان چھین لیا یہاں تک کہ ان کے ضروری کاغذات بھی چھین لیے، امام صاحب نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا کہ مجھے سازوسامان کی ضرورت نہیں مگر میرے کاغذات واپس کردو وہی میرا سرمایہ ہے، اس علم کو حاصل کرنے کی خاطر میں نے جنگلوں کی خاک چھانی اور اتنا طویل سفر اختیار کیا، ڈاکوؤں کا سردار ہنس پڑا اور طنزیہ لہجے میں بولا تو پھر تم نے کیا خاک سیکھا جب کاغذ نہ رہے تو تم کورے رہ گئے یہ کہہ کر اُس نے انہیں کاغذات واپس کردئیے، اس بات کا امام غزالی پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ طوس پہنچ کر ان کاغذات پر جو لکھا ہوا تھا وہ تمام ازبر کر ڈالا۔ امام صاحب تین سال تک وطن میں رہے اور پڑھے ہوئے علوم کو دہرانے میں مصروف رہے۔
اس زمانے میں نیشاپور علوم و فنون کا مرکز تھا۔ امام صاحب نے جب بھی علمی تشنگی محسوس کی تو انہوں نے نیشاپور کی راہ لی اور وہاں اس دور کے سب سے بڑے عالم امام الحرمین ابوالمعالی جویئی کے حلقہ درس میں شریک ہوگئے جو مدرسہ نظامیہ نیشاپور کے صدر مدرس تھے۔ یہاں امام صاحب کو علوم مروجہ کی تحصیل و تکمیل کا موقع ملا، فقہئ شافعی، علم کلام، مقدمات اور فلسفہ میں مہارت نامہ حاصل کیا۔ اُستاد نے اس جوہرِ قابل کو پہچان اور پرکھ کر درس کا کام بھی ان کے سپرد کردیا۔ 1085ء میں امام الحرمین کا انتقال ہوگیا اس وقت تک امام غزالی ان کے ساتھ تھے اور مختلف علوم و فنون میں ماہر ہو چکے تھے خصوصاً ادبیات، فقہ، اصول، حدیث اور کلام وغیرہ میں کافی دسترس حاصل کر چکے تھے اور ان کی شہرت تمام اسلامی دنیا میں پھیل چکی تھی۔ تصنیف و تالیف کا کام بھی شروع کرچکے تھے۔ امام غزالی کی عمر اس وقت 48سال تھی جب وہ مختلف علوم و فنون میں ماہر ہو چکے تھے۔
امام غزالی نے مسلمانوں کے ہر شعبہئ زندگی پر غوروفکر کی نظر ڈالی۔ علم و حکمت کی اصلاح کی، سیاست و اخلاق میں صحیح راہ دکھائی۔ ان کی اصلاحات کو عوام وخواص سب نے قبولیت کا شرف بخشا۔ آپ نے جدیدعلم کلام کی بنیاد رکھی، فلسفہ کی اصلاح کی۔ تعلیم کے لیے بہترین لائحہ عمل پیش کیا۔ اخلاقی تعلیم پر زور دیا۔ صنعت و حرفت کی تعلیم کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی، علوم مقننہ کو درس و تدریس کا خاص جزو بنایا۔
امام غزالی بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کی بیشتر تصانیف فقہ، کلام، منطق، اخلاق اور تصوف پر مشتمل ہیں۔ آپ کی سب سے قیمتی اور مفید کتاب احیاء العلوم ہے جس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی، اس کتاب سے اسلامی دنیا نے کافی استفادہ کیا، یورپ نے بھی اس کتاب سے خاص طور پر فائدہ اُٹھایا، اس کا اصل نسخہ کتب خانہ برلن میں موجود ہے۔ فارسی میں کیمیائے سعادت ایک بلند پایہ تصنیف ہے۔ فقہ میں وسط بسیط مشہور و معروف کتابیں ہیں۔ فلسفہ میں مقاصد الفلاسفہ اور تہافتہ الفلاسفہ، منطق میں معیارالعلم، محک نظر اور میزان العمل قابلِ ذکر ہیں المنقذ امام صاحب کی خودنوشت سوانحِ حیات ہے۔
امام غزالی کی وفات کا واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ انتقال کے دن آپ بالکل صحیح حالت میں تھے۔ صبح سویرے اُٹھے، وضو کیا، نماز پڑھی۔ اپنا کفن منگوایا اس کو چوما اور آنکھوں سے لگا کر کہا، آقا کا حکم سر آنکھوں پر اس کے بعد قبلہ رخ ہوکر لیٹ گئے اور روح پرواز کرگئی۔ امام صاحب کا انتقال دنیائے اسلام کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ تمام اسلامی ممالک میں صفِ ماتم بچھ گئی اور شعرائے عربی اور فارسی میں بے شمار مرثیے لکھے ان میں ابومنطفہ الابیوادی کے عربی مرثیے بہت مشہور ہیں۔