علامہ اقبالؒ

علامہ اقبالؒ
علامہ اقبالؒ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: جمال احمد انجم

یہ بات طے شدہ ہے کہ شاعر، مورخ اور فلسفی گو کہ علم و فن، نثر و نظم، تاریخ اور فکر و فلسفہ کی دنیا میں مختلف راہوں کے مسافر ہوتے ہیں لیکن تینوں میں تخیل، تحقیق و تفتیش، احساس ذمہ داری، جستجو، نزاکت، احساس اور داخلی شعوری سفر جیسی جہتیں مشترک ہوتی ہیں۔
اللہ کی ہدایت و علم کا بے بہا خزانہ لے کر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے۔ ان ہدایات، نصائح اور انتباہ کے باوجود انسان نے آج تک اس ہدایت وراستی کا اتباع کرنا نہیں سیکھا اور عشق رسولؐ آخر (معدودے مختصر سی تعداد کے) جو سوائے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کامل کا نہ ہی قابل تقلید ہے اور نہ ہی قابل اعتنا۔ اس دورِ ابتلاء، انحراف اور نفسا نفسی کے عالم میں اس خصوصیت سے مشرف اقبال کی صورت ہمیں سرخروئی کا موقع عطا کرگئی۔
اقبال حیرت انگیز صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ان کی پہلو دار شخصیت، علمیت، افکار فلسفہ، فکر و شاعری، عشق رسولؐ، اسلام فہمی اور سیاست کو کسی ایک مضمون یا کتاب میں سمونا ممکن نہیں۔ ان کے دین اسلام اور خاتم النبین حضرت محمد ﷺ سے عشق لا انتہا کے متعلق کچھ کہنا آفتاب کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ زیر نظر مضمون کا موضوع اقبالؒ  کی ابتدائی زندگی، تعلیمی مراحل بالخصوص انگلینڈ اور جرمنی میں قیام و تعلیم ہے جس نے ان کی زندگی کا دھارا بدل دیا۔
محمد اقبالؒ  جو حکیم الامت، مفکر پاکستان اور شاعر مشرق کے خطابات سے جانے جاتے ہیں 9 نومبر 1877 کو پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شیخ نور محمد (انتقال 1930ء)زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے۔ بہ اعتبار پیشہ نور محمد درزی تھے۔ وہ مذہبی رجحانات کے مالک تھے۔ والدہ امام بی بی (انتقال 9 نومبر 1914ء) کا تعلق بھی سیالکوٹ سے تھا۔ وہ ناخواندہ تھیں۔ طبیعتاً نرم مزاج اور حلیم الطبع تھیں۔ ان کی خصوصی دلچسپی ضرورتمندوں اور مساکین کی امداد تھی۔ اقبالؒ  کے اجداد پنجابی کشمیری پنڈتوں کے خاندان سے تھے جنہوں نے پندرہویں صدی عیسوی میں اسلام قبول کیا۔ اقبال اپنے کشمیری ہونے پر فخر کیا کرتے تھے۔
انہوں نے چار سال کی عمر میں قرآن کریم کی تعلیم شروع کی۔ ان کی عربی زبان کے معلم و استاد مشہور عالم سید میر حسن تھے۔اقبالؒ  نے میٹرک (1893ء)، انٹرمیڈیٹ (1895ء)، بی اے (فلاسفی اور انگریزی ادب 1897ء) اور ایم اے (1899ء) کی اسناد گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کیں۔
اقبالؒ  کی بنیادی تعلیم و تربیت جن قابل اور ذمہ دار اساتذہ کی صحبت و نگرانی اور جس دینی گھریلو ماحول میں ہوئی اس کا تقاضا تھا کہ انہیں دینی مسائل اور تصوف سے گہری دلچسپی اور لگن پیدا ہوجاتی اور بعینہ ایسا ہوا۔ چنانچہ اقبال کی عہد آفریں شخصیت اسلام کے ایک عظیم پیروکار اور فلسفی کے پیکر میں ڈھلنے لگی۔ 
مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ  کے ہاں علم و فن، فلسفہ ، ادراک، احساس، خود شناسی و خود بینی، عبدیت، نزاکت احساس اور مقصدیت کے عناصر بھرپور اور بدرجہ اتم ملتے ہیں۔ ان کی بچوں کے لیے ابتدائی نظمیں مثلاً پرندے کی فریاد، بچوں کی دعا (لب پہ آتی ہے دعا)، ترانہ ہندی، مقصدیت، نصیحت اور پیغام سے بھرپور نظر آتی ہیں۔
علامہ اقبالؒ  کے سیاسی نظریات ، خدمات، افکار مسلم لیگ میں شمولیت اور اہم کردار ہماری تاریخ کا اہم  حصہ ہیں۔ بخوف طوالت ہم نے ان کے سیاسی کردار فہم اور عملی کوششوں سے صرف نظر کیا ہے۔ ایک مرتبہ عطیہ بیگم سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنے متعلق کہا تھا:
"میری ذات میں دو شخصیات جمع ہیں۔ ظاہری شخصیت عملی اور کاروباری ہے اور باطنی شخصیت ایک فلسفی، صوفی اور خواب دیکھنے والے کی ہے۔"
اقبالؒ  کا اپنے متعلق مندرجہ بالا بیان ان کی پوری زندگی میں جھلکتا چھلکتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے بحیثیت وکیل، سیاست دان، شاعر، فلسفی، دوست، عزیز، معلم اور ادیب اپنے فرائض بدرجہ احسن انجام دیے۔
اقبالؒ  نے ایم اے کی تعلیم کے بعد عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بحیثیت استاد عربی انہوں نے 1899ء سے 1903ء تک اورینٹل کالج لاہور میں خدمات انجام دیں۔ بچوں کے لیے نظمیں اسی دور میں لکھی گئیں۔ 1905ء میں اقبال مزید تعلیم کے لیے لندن گئے۔ اگلے چار سال ان  کی زندگی کے اہم ترین سالوں میں تھے کیونکہ اس مدت میں نہ صرف یہ کہ انہوں نے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ (Ph.D) کی سند حاصل کی بلکہ ان کی شاعری اور دینی رجحانات کو ایسی مہمیز عطا ہوئی جس نے ان کے علوم، فکر اور عملی زندگی میں چار چاند لگادئیے۔ اسلام اور رسول پاک ﷺ کے عشق میں غرق اقبال کے ہاں علوم و فقرا اور بزرگانِ دین کی بے حد قدر و منزلت تھی جس کے سبب وہ بزرگان دین کے مزاروں پہ حاضری اور فاتحہ پڑھنا ازبس ضروری سمجھتے تھے۔ انگلستان جانے سے قبل انہوں نے بطور خاص حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضری دی۔
1905ء تا 1907ء اقبالؒ  نے Thomas Walter Arnold کی صحبت میں علم فلسفہ کی منزلیں طے کیں۔ یہاں Thomas Arnold کے متعلق مختصر سا بیان ضروری ہے۔ Sir Thomas Arnold  نے 1888ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (MAO) علی گڑھ اور 1898ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں مضمون فلسفہ کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ 1899ء کے اخیر اور پھر اگست 1902 سے اپریل 1903ء تک یونیورسٹی اورینٹل کالج کے قائم مقام پرنسپل رہے۔ اس کے بعد وہ لندن واپس چلے گئے اور 1907ء میں انڈیا آفس لائبریری کے نائب لائبریرین تعینات ہوئے تھے۔
سر تھامس آرنلڈ کی مشتقانہ اور علمی شخصیت سے اقبال بخوبی فیضیاب ہوئے۔ یہ پروفیسر سرتھامس آرنلڈ ہی تھے جنہوں نے اقبال کو شاعری ترک نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا ورنہ اقبال تو سنجیدگی سے شاعری کو بے کار اور تضیع اوقات سمجھ کر کسی اور کام میں دل لگانے کی سوچ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاعری میں وقت صرف کرنے کے بجائے اس سے مفید کام میں لایا جائے۔ یہ اقبال کی خوبی تھی کہ اپنے معلم کے مشورہ کو اہمیت دے کر انہوں نے شاعری جاری رکھی۔ اقبال نے اپنے استاد پروفیسر تھامس آرنلڈ کی یاد میں ایک نظم و نالۂ فراق بھی لکھی تھی۔
اقبالؒ  نے Ph.d کے لیے مقالہ The Development of Metaphysics in Persia لکھا تھا۔ Dr R.A.Nicholson اور DR E.G.Brown نے اس مقالے کے سلسلے میں اقبال کی مدد کی اور مفید مشورے دیے۔ اقبال کو ڈاکٹریت کی ڈگری اسی مقالہ پر جرمنی میں ملی۔
انگلستان کے Trinity College کو کیمبرج کا سب سے بڑا کالج ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کالج کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں سے بائیرن، ٹینی سن برٹرینڈ سل اور نیوٹن سے عظیم الشان لوگوں نے کسب علم کیا۔ اسی کالج سے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے بھی تعلیم حاصل کی۔ علامہ محمداقبالؒ  نے Trinity College میں داخلہ 1905ء میں لیا۔ ان کا ارادہ Ph.D کرنے کا تھا لیکن کیمبرج میں اسوقت ڈاکٹریٹ  کی تعلیم و ڈگری کے لیے کوئی قواعد و ضوابط نہ تھے۔ کیمبرج میں Ph.D کی ڈگری کے قواعد 1910ء میں مرتب کیے گئے۔ یہی وجہ تھی کہ اقبال نے جرمنی کا سفر کیا اور میونخ جرمنی سے 1907ء میں Ph.D کی سند حاصل کی اور ڈاکٹرمحمد اقبالؒ  کہلائے۔ جرمنی میں اقبال نے جرمن زبان، جرمن زبان کی استاد Emma Wegenast سے پڑھی۔ اقبال کی خوش قسمتی کہ Emma کو بھی شعر و ادب سے گہری دلچسپی تھی۔  ہائیڈل برگ میں قیام کے دوران وہ Emma سے جرمن زبان سیکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ شاعری اور ادب پر بھی گفتگو کرتے جس سے ان کے شاعرانہ تخلیات اور فکر کو جلا اور پختگی بخشی۔ اس شہر میں علامہ اقبال کی رہائش گاہ پر آج بھی ان کے نام کے ساتھ یادگاری تختی نصب ہے۔ ہائیڈل برگ میں ان کے نام سے ایک سڑک بھی موسوم ہے۔ اقبال نے Emma سے ہی Goetheکا مشہور زمانہFAUSTپڑھا جو جرمنی زبان کی عظیم تخلیقات میں سے ایک ہے۔ انہوں نے شوپن ہار کو بھی یہیں پڑھا۔
علامہ محمد اقبالؒ  کی سیاسی مصروفیات ایک علیحدہ مضمون کی متقاضی ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور اسے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت کی حیثیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے انگلستان سے مستقلاً واپسی کے بعد 1930ء میں مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور علامہ اقبال نے ان کے شانہ بشانہ دل و  جان سے ہندوستانی مسلمانوں کی خدمت کرتے رہے۔ فلسفی ڈاکٹر محمد اقبالؒ  نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا تصور پیش کیا۔ چودھری رحمت الہٰی 1930ء تا 1933ء نے لندن میں تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی اور ایک علیحدہ مملکت برائے مسلمانان ہند کے خدوخال اجاگر کرنے میں ازحد محنت کی۔ رحمت الہٰی علامہ اقبال کے شیدائی تھے اور ان سے بے حد متاثر تھے۔
عظیم الشان اور بے نظیر سیاست دان قائد اعظم محمد علی جناح نے علامہ اقبالؒ  کے متعلق فرمایا:
"اقبال نے آپ کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ دکھا دیا ہے جس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوسکتا وہ دورِ حاضر میں اسلام کے بہترین شارع تھے کیونکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا۔ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ آپ کی قیادت میں مجھے ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ میں نے ان سے زیادہ وفادار، رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔"
مفکرِ پاکستان علامہ محمداقبالؒ  کو نزلہ کی شکایت ہوئی جس نے طوالت اختیار کرلی۔ مرض نے پیچیدگی اختیار کرلی۔ تمام ممکنہ علاج معالجہ ہوا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے اور بالآخر بعمر ساٹھ سال 21 اپریل 1938ء خالق حقیقی سے جاملے۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
 ۔
 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -