بہتری کے آثار نظر آنے لگے!

   بہتری کے آثار نظر آنے لگے!
   بہتری کے آثار نظر آنے لگے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 تحریک انصاف کی قیادت نے بانی جماعت کی ہدایت پر گزشتہ روز (جمعرات) ترنول میں مقررہ جلسہ ملتوی کر دیا۔ اب یہ جلسہ 8 ستمبر کو ہو گا جس کے لئے انتظامیہ نے معینہ شرائط کے ساتھ اجازت بھی دے دی ہے۔ گزشتہ روز والے جلسے کی اجازت منسوخ کر دی گئی تھی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور سیکریٹری جنرل عمر ایوب نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ جلسہ منعقد کرنے کی صورت میں انتشار پیدا کر کے الزام لگانا چاہتی تھی۔ حکومت پنجاب کی طرف سے پورے صوبے میں 24 اگست تک دفعہ 144کا نفاذ کر کے جلسوں، جلوسوں کی ممانعت کر دی ہے۔ اس عرصہ میں دینی جماعتیں ختم نبوت کے حوالے سے احتجاج کر رہی ہیں جبکہ 28 اگست کے لئے جماعت اسلامی نے عام ہڑتال کی اپیل کی ہے۔ اس سلسلے میں بعض تاجر تنظیمیں بھی ہڑتال کا اعلان کر چکی ہیں۔

اطلاع یہ ہے کہ تحریک انصاف کا جلسہ مشروط طور پر ملتوی کیا گیا۔ اس حوالے سے انتظامیہ اور تحریک کے بعض اہم اراکین کے درمیان رابطہ بھی ہوا اور باقاعدہ بات چیت کے بعد بانی کو اطلاع دی گئی اس کے بعد چیئرمین اور جنرل سیکریٹری کی موجودگی میں سابق وفاقی وزیر محمد اعظم سواتی نے بتایا کہ ان کی بانی سے ملاقات ہوئی ہے اور کپتان نے فی الحال جلسہ موخر کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اس سلسلے میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ آئین کے مطابق سیاسی جماعتوں کو اظہار رائے کی آزادی ہے اور وہ جلسے اور جلوس کر سکتے ہیں۔ شرط پر امن رہنے کی ہے۔ قیادت پر امن رہنے کا یقین دلا رہی اور اعلان کر رہی تھی لیکن خیبرپختونخوا سے اچھی خبر نہیں کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور بہت مشتعل ہیں اور انہوں نے کمشنر کی طرف سے جلسے کی اجازت منسوخ کرنے کی اطلاع پر سخت ترین ردعمل کا اظہار کیا اور اعلان کیا کہ جلسہ ہو گا اور ہم یہاں سے گیس ماسک اور دیگر لوازمات سمیت جائیں گے اور ہمیں کوئی روک نہیں سکے گا اور اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ خود ذمہ دار ہوگا ایک موقع پر تو انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو براہ راست مخاطب کیا اور کہا جلسہ تو ہو گا۔ آپ گولی چلا کر تو دیکھیں۔ یوں یہ اندازہ لگایا گیا کہ یے انداز تو ”ایجنٹ پرووکیٹیر“ سا ہے آگے اللہ کو جو منظور، بہر حال کپتان اپنے اس کھلاڑی کو بہت پسند کرتے ہیں اور ان جیسے حضرات کا ایک مضبوط گروپ بھی ہے کہ جلسہ موخر ہونے کی اطلاع پر سابق سپیکر اسد قیصر نے وزیر اعلیٰ سے رابطہ کیا جو کارکنوں کو تین بجے سہ پہر صوابی انٹر چینج پہنچنے کی ہدایت کر چکے تھے، جہاں سے جلوس کی قیادت کا اعلان کیا گیا کہ وہ خود کریں گے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایسے ہی اشتعال انگیز ”کارنامے“ انجام دیتے چلے آ رہے ہیں میں تو مطمئن ہوں کہ جوش پر ہوش غالب آیا اور فریقین (انتظامیہ+ تحریک انصاف) ایک بہتر سمجھوتے پر رضا مند ہو گئے اور اب انتظامیہ نے یہ اعلان بھی کیا کہ جلسے کو مکمل سیکیورٹی  فراہم کی جائے گی۔ یوں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ جمہوری انداز کا عمل شروع کیا جائے گا جس میں سب فریقوں کا بھلا ہے۔ دوسری صورت میں اندازہ لگا لیں کہ خود وزیر خزانہ اورنگ زیب نے تسلیم کیا کہ آئی ایم ایف کی دوست ممالک والی سفارشات ابھی مکمل نہیں ہو سکیں۔ اس لئے اگست کے بورڈ اجلاس کی میٹنگ میں پاکستان کے ساتھ ہونے والے سٹاف لیول معاہدے کی منظوری نہیں مل سکی جو اب ستمبر کے اجلاس میں ہو گی۔ دعا ہے کہ حالات بہتر ہوں اور ملک کے معاشی حالات مستحکم ہوں تاکہ عوام کو بھی سہولتیں مل سکیں۔

جہاں تک معروضی حالات کا تعلق ہے تو وہ سب کے سامنے ہیں، جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری ایک نیا ایشو بن چکا۔ عمران خان ان کے حوالے سے مختلف موقف اختیار کر چکے ہیں اور لا تعلقی کا اعلان کرنے کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کو وعدہ معاف گواہ بنایا جائے گا جبکہ مقتدر حلقوں کے ذرائع نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا البتہ مقدمہ کی کھلی سماعت کے مطالبے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا ان کا کام نہیں البتہ ان کے خلاف مقدمہ ضرور کھلی عدالت میں چلے گا تاکہ عوام اور دنیا دیکھ سکے کہ انہوں (عمران) نے کیا کیا  کیا تھا۔

جہاں تک جنرل (ر) فیض حمید کو حراست میں لینے اور الزام عائد کرنے کا سوال ہے تو یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے میں نے اس حوالے سے محتاط رہنا ضروری سمجھا۔ اگرچہ جہاں تک فوج کے انداز اور طریق کار کا تعلق ہے تو ایسے بڑے آدمی کے لئے کچا ہاتھ نہیں ڈالا جاتا اس سلسلے میں بہت کام کیا گیا اور معتبر شواہد اکٹھے کر کے ہی ان کو حراست میں لے کر مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو یہ خدشہ بے جا نہیں کہ ان کے خلاف مقدمہ بھی فوجی عدالت میں چلایا جائے لیکن اس کے لئے مجبوری سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کی طرف سے سویلین کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے حوالے سے حکم امتناع اب تک موجود ہے اگرچہ یہ اجازت مل گئی تھی کہ جو حضرات پہلے سے فوج کی حراست میں ہیں ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی مکمل ہو سکتی ہے مگر فیصلہ نہیں سنایا جائیگا۔ جب تک اس حکم امتناعی کے خلاف نظر ثانی منظور نہ ہو، عمران خان کو فوجی حراست میں لینا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ کپتان کے وکیل بخوبی جانتے ہیں کہ ابھی تک تحفظ حاصل ہے۔ تاہم اوپر کی سطح پر قریباً یہ طے ہے کہ محترم خان صاحب کو بھی فوجی عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا اور کھلی سماعت کا فیصلہ بھی اس وقت ہوگا جب حکم امتناعی ختم ہو جائے اور پھر مقدمہ فوجی عدالت میں منتقل ہو،ابھی تو دلی دور است والی بات ہے۔ اس لئے سب کو منتظر رہنا چاہئے۔ البتہ حالیہ تقریبات اور چیف صاحب کی تقریروں سے ظاہر ہے کہ بات مولوی مدن والی نہیں اور بن نہیں سکی۔ اسی لئے تحریک انصاف کا سنجیدہ دھڑا یا گروپ انتظامیہ اور حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نظر آتا ہے۔ مسئلہ صرف اور صرف اس گروپ کا ہے جو شدت پسندی اختیار کر چکے ہوئے ہیں اگرچہ ان میں سے بھی بعض انتہائی وفادار حضرات اس کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ جماعت کو کام کرنے کی اجازت ہو اور بانی کے ساتھ مکمل انصاف کیا جائے۔ ان کی خواہش ہے کہ عمران خان بات چیت سے رہا ہو سکتے ہیں تو کوشش کر لینا چاہئے دیکھئے اب کیا ہوتا ہے۔ میں تو اب بھی مفاہمت ہی کا قائل ہوں کہ جمہوریت میں تشدد نہیں ہوتا اور آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔

مزید :

رائے -کالم -