خواتین کے بیت الخلاء مردوں سے زیادہ ہونے چاہئیں
ہمارے ہاں پاکستان میں عوامی مقامات پر بیت الخلاء نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر ہیں بھی تو ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ آپ انہیں استعمال نہیں کر سکتے۔ بیت الخلاء انسان کی فطری ضرورت ہیں اور اچھے صاف ستھرے بیت الخلا کی موجودگی کو یقینی بنانا کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
عوامی جمہوریہ چین میں گزشتہ چند برسوں میں شہری سہولیات کو بہت زیادہ بہتر بنایا گیا ہے۔ ان سہولیات میں سے ایک بیت الخلاء کی فراہمی ہے۔ اگر میں بیجنگ کی بات کروں تو تقریباً ہر سڑک پر ہر ایک کلو میٹر کے بعد ایک صاف ستھری عمارت موجود نظر آتی ہے جس میں مرد و خواتین کے الگ الگ اور صاف ستھرے بیت الخلاء موجود ہوتے ہیں۔ لوگ خود بھی صفائی کا خیال رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہاں موجود ایک یا دو رکنی عملہ بھی صفائی کو یقینی بناتا ہے۔ ہر بیت الخلا میں ہاتھ دھونے کے لیے صابن، ہاتھ دھونے والا مائع، ہاتھ خشک کرنے کے لئے ٹشو پیپر یا برقی ہینڈ ڈرائر موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سب وے، بس اسٹاپ اور شاپنگ مالز میں بھی یہی صورت حال ہے۔
آج اس موضوع پر بات کرنے کی ایک وجہ اس حوالے سے ہونے والی ایک قانون سازی ہے۔ چین میں خواتین کے بیت الخلاء کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے ایک قانون سازی کی گئی۔ رش کے اوقات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ خواتین کے بیت الخلاء کے سامنے ایک انتہائی لمبی اور سست رفتار قطار موجود ہوتی ہے۔ جب کہ مردوں والی جانب لوگ تیزی سے بیت الخلاء کے اندر اور باہر جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
یہ مسئلہ ایک طویل عرصے سے دنیا بھر کی زیادہ تر خواتین کے لیے ایک پریشانی ہوا ہے۔ تاہم، چین میں خواتین کے لیے ایک اچھی خبر ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے حال ہی میں خواتین کے حقوق اور مفادات کے تحفظ سے متعلق قانون پر نظرثانی کا مسودہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کو ہر سطح پر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ عوامی مقامات پر مردوں کے مقابلے میں خواتین کے بیت الخلاء زیادہ ہوں۔
سی سی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ مسودہ بدھ کو نیشنل پیپلز کانگریس کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں غور و خوض کے لیے پیش کیا تھا۔ ہیش ٹیگ "مردوں کے بیت الخلاء سے زیادہ خواتین کے بیت الخلاء کو یقینی بنائیں" چین کے سماجی ربطے کی ویب سائٹس پر تیزی سے ٹرینڈ ہونے لگا ہے، اس ٹرینڈ پر 260 ملین سے زیادہ لوگوں نے اپنی آراء دی ہے۔
اس تجویز کو مرد اور خواتین دونوں نیٹیزین کی مکمل حمایت حاصل ہوئی ہے۔ تبصروں میں لکھا گیا ہے کہ "ہمیں مردوں سے کہیں زیادہ باتھ روم کی سہولیات کی ضرورت ہے! خواتین بیت الخلاء میں زیادہ وقت صرف کرتی ہیں۔ کیونکہ مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو بیت الخلاء میں لے جاتی ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں آئینے میں اپنے لباس اور شکل کو چیک کرنے اور ایڈجسٹ کرنے کے لیے جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
غیر منافع بخش عالمی ٹوائلٹ آرگنائزیشن کے مطابق، لوگ روزانہ اوسطاً چھ سے آٹھ بار ٹوائلٹ استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تقریباً تین سال باتھ روم میں گزار تے ہیں۔
اس وقت چین میں مقیم ایک دستاویزی فلم کے ڈائریکٹر ریو ٹیکوچی نے سینا ویبو کے مسودے کے ساتھ اپنے اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اکثر خواتین کو جاپان میں خواتین کے بیت الخلاء کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے دیکھتے ہیں۔"میں نے سنا ہے کہ اگر عورتوں کے بیت الخلاء کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تین گنا ہو تو یہ برابر ہوگا۔"
ایک چین برانڈ اسٹور کے انٹیریئر ڈیزائنر تانگ جیاروئی نے کہا کہ وہ جو اسٹورز ڈیزائن کرتے ہیں ان میں مردوں کے بیت الخلاء کے مقابلے میں خواتین کے کیوبیکلز تقریباً دو زیادہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "میں ہمیشہ شاپنگ مالز میں گھومتے ہوئے خواتین کے بیت الخلاء کے قریب لمبی لائنیں دیکھتا ہوں۔ اس کے علاوہ، خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ وقت لگتا ہے۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین اوسطاً 249 سیکنڈ کے لیے بیت الخلاء استعمال کرتی ہیں، جو مردوں کے 170 سیکنڈز سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے باوجود مردوں اور خواتین کے عوامی بیت الخلاء کی مربع فوٹیج ایک جیسی ہے، جس کی وجہ سے خواتین کے لیے اوسطاً 10 کیوبیکلز اور مردوں کے لیے 10 پیشاب خانے کے علاوہ دو کیوبیکلز ہیں۔
سینٹرل چائنا نارمل یونیورسٹی کے پروفیسر پینگ چاؤہوئی نے کہا کہ منصوبہ بندی کرتے وقت خواتین کی حیاتیاتی ضروریات کو مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ "زیادہ خواتین کیوبیکلز کو شامل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ کچھ بڑے پیمانے پر اجتماعی جگہوں جیسے کہ پارکس اور تھیٹر میں، بیت الخلاء جانے والے مردوں اور عورتوں کا تناسب تقریباً 1 سے 4 ہے۔
یہ ایک نہایت سنجیدہ موضوع ہے۔ ہمیں ہرسطح پر اس حوالے سے آواز بلند کرنی چاہیے۔ پاکستان میں ہر عوامی سطح پر خواتین کی نمائندگی موجود ہے۔ ہماری خواتین پارلیمنٹ میں موجود ہیں، ٹی وی اینکرز ہیں ، کالم نویس ہیں۔ انہیں اس حوالے سے ضرور آواز بلند کرنی چاہیے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔