کچھ ایس او پیز اپنے لئے بھی ۔۔

’’ امی امی دیکھیں ، بھائی نے میرا ربڑ توڑ دیا ہے ۔ ‘‘
’’ میرے آگے زبان چلاتی ہو جاہل عورت ۔ ‘
’’ آپ گھر جائیے محترمہ ، آپ کا کام یہاں فائلیں سنبھالنا نہیں بلکہ ڈوئی چلانا ہے ۔ ‘‘
’’ تم تو بہت منافق ہو ، کس منہ سے نماز پڑھتے ہو ۔ ‘‘
یہ نمونے کے چند جملے ہیں جو روزمرہ زندگی میں ہمیں سننے کو ملتے ہیں ، طنز و تشیع کے ذریعے دوسروں کا موڈ خراب کیا جاتا ہے ان کی دل شکنی کی جاتی ہے اور ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کو بھی اپنا حق سمجھ لیا جاتا ہے ۔
لیکن آپ نے صرف ان چند ہدایات پر عمل کرنا ہے جس کے بعد کسی کی اتنی جرات نہیں ہو گی کہ وہ آپ کے معاملات کو اپنے طریقے سے ہینڈل کرے ۔
سب سے پہلے کسی بھی شخص کو اتنی جگہ یا گنجائش مت دیں کہ وہ آپ کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا اپنا فرض ہی سمجھ لے ۔ خصوصا آپ کی خانگی زندگی ، آپ کی نوکری ، شخصیت یا عادات کے متعلق ہمیشہ منفی بات ۔ ہاں لیکن یہاں خیال رکھیں کہ کون مثبت تنقید کر رہا ہے اور کون منفی خیالات کو ہوا دے رہا ہے ۔
کسی بھی شخص یا رشتے سے حد سے زیادہ توقعات وابستہ مت کریں کیونکہ وہ لوگ بھی ہماری طرح انسان ہیں اور ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں اور ان کی کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے ۔
زندگی میں دوستوں کی ضرورت سب کو ہوتی ہے لیکن کہتے ہیں کہ دل کا راز کسی سے مت کہنا کیونکہ دنیا ایک نقارہ ہے یہ تمھیں بدنام کر دے گی ۔ لہذا اپنے راز اپنے دل میں رکھیں ۔ کیونکہ لوگ آپ کے برے وقتوں میں ہمدردی کے بہانے آپ کے راز پوچھیں گے اور انھیں آپ کے اچھے وقتوں میں آپ کی بدنامی کے لئے استعمال کریں گے ۔
لوگوں سے اتنا ہی رابطہ رکھیں جتنا وہ آپ سے کرتے ہیں یعنی کوئی ہاتھ ملائے تو اس سے کہنی ملانے کی ضرورت نہیں ۔ اعتدال ضروری ہے ۔ دوستوں کو بھی اتنی ہی بات بتائیں جتنی ضرورت ہو کیونکہ دوست کو دشمن بنتے دیر نہیں لگتی ۔
اپنے حق کے لئے ہمشہ لڑیں کوشش ضرور کریں کہ کبھی کسی سے تصادم نہ ہو لیکن اگر کوئی آپ کی حق تلفی کر رہا ہے تو اپنے حق کے لئے آواز بلند کریں ۔ یاد رکھیں کہ یہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہہ کا فرمان ہے کہ ’’ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے آواز بلند کرو گے اتنی ہی زیادہ قربانی دینا پڑے گی ۔
کسی کو یہ حق نہ دیں کہ وہ آپ پر دھونس جمائے یا رعب دکھائے ۔ ظاہر ہے کہ بدزبان شخص سے آپ اسکی زبان میں بات نہیں کر سکتے لیکن یہ بھی ذہن نشین رہے کہ آپ ان کی بدتمیزیوں کے جواب میں خاموش رہے ہیں جس کی وجہ سے آج وہ شیر بنے ہوئے ہیں ۔ ناں کہنے کا فن سیکھیں ۔ کوئی بدتمیزی کرے تو یہ ایس او پیز اپنائیں کہ جس طرح فیس ماسک پہن کر گرد و غبار اور کورونا وائرس سے بچا جاتا ہے بالکل اسی طرح ان منفی لوگوں سے بچیں ۔ لیکن اگر بات اس سے بھی آگے بڑھتی ہے تو آفس میں حکام بالا اور گھر میں کسی بڑے کو بتائیں کہ ایسے افراد کو ان کی ذات تک محدود کیا جا سکے۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب کہ کورونا وبا نے جہاں ہمارے دل وذہن میں ڈر و خوف پیدا کر دیا ہے وہیں اسکی ایک اصطلاح نے ہمیں جینا بھی سکھایا ہے۔ جی ہاں ایس او پیز یا احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کی اصطلاح ۔
اب چھوٹے چھوٹے بچوں سے لیکر بڑے بوڑھوں نے بھی نئے سرے سے ۲۰ سیکنڈ تک ہاتھ دھونا ، فیس ماسک استمال کرنا اور سماجی دوری اختیار کرنا سیکھ لی ہے ۔ تو کیا ہم اپنی ذات کی بقا اور عزت نفس کی بحالی کے لئے اپنے لئے ایس او پیز نہیں بنا سکتے ۔ کیونکہ ہمارا بھی حق ہے کہ کوئی ہم پر بے جا تنقید نہ کرے ، ہمارے جذبات سے نہ کھیلے ، ہمیں استعمال نہ کرے اور ہم پررعب نہ جمائے ۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.